پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیخلاف قومی اسمبلی میں گھمسان کا رن
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اس اضافہ کو جگا ٹیکس قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت وہاں ترقیاتی کام کرواتی ہے جہاں جیب گرم ہونے کا امکان ہو۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کی تفصیل بتا ڈالی اور کہا کہ یہ تو لاڑکانہ کی شکل درست نہیں کر سکے۔ نارووال کے حالات لاڑکانہ سے کہیں بہتر ہیں۔ دیگر اپوزیشن راہنمائوں نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی مذمت کرتے ہوئے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا ۔ جمعرات کے روز ایوان زیریںمیں وقفہ سوالات کے بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر یہ معاملہ اٹھایا اور کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر عوام پر مہنگائی کا ایٹم بم گرا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اور ایوان کے ارکان کو قیمتوں میں اضافہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ملک کی غریب اور مڈل کلاس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ان مصنوعات میں ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ بھارت سمیت خطہ کے ملکوں میں قیمتیں پاکستان سے کم ہیں۔ عالمی قیمتوں میں اضافہ پر یہاں بھی قیمت بڑھ جاتی ہیں لیکن کمی کا عوام کو ریلیف نہیں دیا جاتا ۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے میں ناکامی پر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعہ عوام پر ظلم کر رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر سیکز ٹیکس پندرہ فیصد سے بڑھا کر تیس فیصد کر دیا گیا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ پر شافی جواب چاہیے ورنہ میں بولتا رہوں گا۔ سپیکر نے کہا کہ متعلقہ وزیر موجود نہیں جب وہ ہوں گے تو تیل کی قیمتوں کے حوالے سے بات کریں گے۔ ابھی بزنس لینے دیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ڈیزل کی قیمت چالیس سے چوالیس روپے پڑ رہی ہے۔ لیکن عوام سے پچاسی روپے وصول کئے جا رہے ہیں۔ سو فیصد سے بھی زائد منافع لیا جا رہا ہے جو باعث شرم ہے۔ یہی صورتحال پٹرول کی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ اضافے واپس لئے جائیں۔ جولائی سے مارچ900بلین روپے ٹیکس وصول کیا گیا ۔ یہ پیسہ پنجاب میں خرچ ہو گا۔ اگر کوئی ترقیاتی کام ہوںگے تو پورے پاکستان میں خرچ ہونے چاہئیے۔ صرف ایک صوبے میں نہیں۔ اس پر کوئی جواب دینے والا نہیں ایک پارلیمانی سیکرٹری جواب دے رہا تھا۔ اس موقع پر خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری رانامحمد افضل نے جواب دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں‘ ان سے حاصل ہونے والی آمدن پاکستان کی ترقی پر خرچ ہوگی۔ افراط زر اس وقت ایک ریکارڈ سطح پر ہے۔ اوگرا ایک آزاد ادارہ ہے اس کی سفارش کے مقابلے میں نصف قیمت کم کی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں کمی پر ہم بھی قیمتیں کم کریں گے۔ افراط زر اس وقت کنٹرول میں ہے۔ یہ پیسہ پاکستان کی ترقی پر خرچ ہوگا۔ خورشید شاہ جب اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو وزیر داخلہ احسن اقبال آستینیں چڑہا کر اٹھے اور کہا کہ موجودہ دور میں کوئی نیا ٹیکس پٹرولیم مصنوعات پر نہیں لگایا گیا‘ ملک میں ہونے والی ترقی اور صوبوں کے درمیان موازنہ کے لئے مباحثہ پر تیار ہیں‘ انفراسٹرکچر‘ توانائی میں آج جتنی سرمایہ کاری ہو رہی ہے گزشتہ پندرہ سال میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ ملک میں موٹرویز کے جال بچھائے جارہے ہیں‘ توانائی کے تعطل کا شکار بڑے منصوبوں پر کام ہمارے دور میں شروع ہوا۔ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں قیمتیں کم ہیں۔ اوگرا کی سفارش پر حکومت نے ہمیشہ کم اضافہ کیا ہے تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے۔2012-13ء کے مقابلہ میں پی ایس ڈی پی ایک کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ انہوں نے ملک کے چاروں صوبوں میں موٹر ویز، ڈیموں، رابطہ کاری اور انفرا سٹرکچر سمیت تمام ترقیاتی کاموں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ تو یہ تو لاڑکانہ کی شکل درست نہیں کر سکے۔ اس سے اچھ انفرا سٹرکچر تو نارووال کا ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہم نے سندھ میں ترقی کا جائزہ لینے کے لئے میڈیا کو دعوت دی ہے۔ حکومت ٹیکسوں کا جواب دے۔ چوہدری احسن اقبال نے کہا کہ تیل کی قیمتیں عالمی قیمتوں اور گھریلو کھپت کو مدنظر رکھ کر فکس کی جاتی ہیں جو بھی حکومت ہوگی امپورٹ بل کے تناظر میں فیصلہ کرے گی۔ پاکستان میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ ترقی پر اگر یہ بحث کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔ کارکردگی کا موازنہ کرلیتے ہیں۔ اس موضوع پر حزب اختلاف کے دیگر قائدین نے بھی اظہار خیال کیا۔ جمعرات کو سید نوید قمر نے ذاتی وضاحت پر کہا کہ ہمارے دور حکومت میں فی بیرل قیمتیں 149 ڈالر تک چلی گئی تھیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے پر ملک میں بھی تیل کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں تاہم جب بین الاقوامی منڈ یوں میں قیمتیں کم ہو جاتی ہیں تو اس کا فائدہ عوام کو نہیں دیا جاتا۔ حکومت کو ریونیو میں اضافے کے لئے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی بجائے دیگر ذرائع سے ریونیو جمع کرانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عوام پر اضافی بوجھ ہے‘ اوگرا کی خودمختاری ایک الگ معاملہ ہے‘ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ریلیف فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ گیس پر سرچارج میں اضافے سے صنعتوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور کرایوں کی مد میں عوام پر بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر سے لے کر اب تک تیل کی قیمتوں میں 6 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔