ڈاکٹر بینا منصور سے ملاقات
عبدالشکور ابی حسن
بیورو چیف: کویت سٹی
ڈاکٹر بینا منصور ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹرہیں انہوں نے اپنے حسن کارکردگی سے جہاں مریضوں کو اللہ کے حکم سے شفابخشی وہاں ہسپتال انتظامیہ بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ڈاکٹر بینا منصورنے نئے آنے والے ڈاکٹروں کوتجویز دیتے ہوئے کہاکہ وہ اسپیلائشن ضرور کریں تب جاکر وہ بیرون ممالک کا رخ کریں،ڈاکٹر بینا منصورکراچی آغایونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اسپیشل کرنے کے بعد وہ کویت آ ئیں انہوں نے بتایا کہ وہ تعلیم کے دوران بھی کویت آتی رہی ہیں کیونکہ ان کے مجازی خدا کویت کی ایک کمپنی میں چارٹرڈ اکاوئٹنٹ ہیں جس کی وجہ سے انہیں کویت آنا پڑتا تھا جب تعلیم مکمل کی اور اسپیشلائزیشن کیا تو مکمل طورپر کویت آگئی اور یہاں ایک ہسپتال میں تعینات ہوئی اور میری ڈیوٹی ائی سی یو وارڈ میں لگی کیونکہ میں نے اسی میں اسپیشلائزیشن کیا ہوا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی سفارت خانہ یاپاکستانی ڈاکٹر سوسائٹی ان کویت کے کسی عہدیدار نے کسی قسم کی کوئی مدد کی ہے تو انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں آج تک کسی نے پوچھا تک نہیں شاید کسی کو علم بھی نہیں ہوگا انہوں نے کہاکہ جب کوئی پاکستانی زخمی حالت میں آیاہے تو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا کہ جبکہ اگر کسی اور ملک کا باشندہ زخمی حالت میں آئی سی یو میں آتاہے تو اس ملک کاتمام عملہ رابطہ کرتاہے اور ہسپتال میں بھاگے آتے ہیں جس سے رشک آتاہے کہ کاش کوئی پاکستانی زخمی یا رحلت کے موقع پر ہمارے سفارت سے کوئی افسر تو آئے ایسے لگتاہے پاکستانی اوورسیز کویت میں لاوارث ہیں جبکہ فوٹو سیشن کے لئے سبھی بھاگتے آتے ہیں کاش کوئی پاکستانیوں کے لئے اتنی تڑپ رکھتاہو۔انہوں نے بتایا کہ میری آئی سی یو میں ڈیوٹی ہوتی ہے جس طرح میرے ساتھ سبھی لوگوں کا رویہ ہوتا ہے اس سے دل بہت مطمئن ہے اگرچہ شروع شروع میں زبان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ایسا نہیں۔ جب ان پوچھا سے گیا کہ کویت میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم قائم ہے کیا کبھی آپ سے انہوں نے رابطہ کیاہے تو انہوں نے کہاکہ سنا ہے لیکن آج تک کسی رابطہ کیا ان کو یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ کوئی لیڈی ڈاکٹر آئی سی یو میں اسپلائزئشن بھی ہے،انہیں کی ایک دوست شلینا خواجہ جو یونیورسٹی سے ایم بی کیا تو کویت کی ایک کمپنی نے10افراد پرمشتمل ایک گروپ چنا اور انہیں کویت لے آیا شلیناخواجہ بھی کراچی کی رہائشی ہیں 10 سال کویت میں رہنے کے بعد اب وہ کینیڈا جا رہی ہیں وہ پردیس سے پردیس جارہی انہوں نے اپنے کینیڈا جانے کی وجہ کویت میں پاکستانیوں پر عائد پابندی بتائی کہ وہ کسی رشتہ دار کو یہاں نہیں بلاسکتی تھی جس وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے کویت کو خیر باد کہہ کروہ کینیڈا جارہی ہیں حالانکہ کویت میں انہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں سوائے ویزوں پر عائد پابندی کا جس سے دل مطمئن نہیں اس لئے کویت چھوڑ کر کینیڈا جانے کا پروگرام بنایا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم 10لوگ لمس یونیورسٹی سے کویت آئے ہرقسم کی سہولت موجود تھی سب کو ایک مسئلہ ہے کہ وہ اپنے کسی اپنے کو کویت نہیں بلاسکتے جو انتہائی تکلیف دہ ہے انہوں نے کہاکہ میں حیران ہوںکہ سفارت خانہ اور حکومت پاکستان کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ اتنا قریبی دوست ملک جو پاکستانیوں سے محبت بھی کرتاہے اس باوجود پاکستانیوں کے لئے اتنی سختی کیوں ہے؟وزیراعظم یا پاکستان کے صدر نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی جو ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔