ملکی سیاست کا درجہ حرارت
وقار ملک( برسلز)
ملکی سیاست میں گرما گرمی اور حالات پر یورپین سیاسی پنڈت بھی پشیمان نظر آتے ہیں پاکستان خطے میں وہ ملک ہے جس کی ضرورت دنیا کو کسی نہ کسی انداز میں رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کو ایک گہری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پانامہ لیکس کے ایشو کا ظہور ہوتے ہی قومی منظر پر انوکھی صورتحال نے جنم لیا جس سے حالات مکمل طور پر بگڑگئے معیشت پر گہرا اثر پڑا بیرونی سطح پر پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی لاتعداد فتنوں نے جنم لیا نفرتیں پیدا کی گئی حتیٰ کہ حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی سیاست کرنے والوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے سازشوں کا آغاز کردیا اور اس حد تک آگے چلے گئے کہ اُن کے نزدیک صرف اقتدار ٹارگٹ تھا پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائے جانے کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے جس کی پاکستان کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں ایسی حکومت وفاق کی یکجائی کی ضمانت نہیں دے سکتی صرف اور صرف پارلیمانی جمہوریت ہی یہ فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔ ن لیگ کی حکومت نے جہاں 18 سال بعد مردم شماری کرائی وہاں لوڈ شیڈنگ خاتمے کے قریب ہے۔ میاں محمد نوازشریف کے جانے کے بعد معیشت کو دھچکا لگا ملک پاکستان ایک دھچکے کے ساتھ ہلا۔ دنیا میں پاکستان کے بارے میں منفی خبریں لگیں بلکہ پاکستان کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی قومی رہنمائوں اور سیاسی لیڈروں کو ہوش مندی سے کام لینا چاہئے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے اداروں کو آپس میں لڑانے سے اجتناب کریں۔ عمران خان جلسے جلوسوں میں تعمیری بات کے ذریعے عوام کی تربیت کریں غیر معتدل الفاظ سے استعمال سے جہاں پاکستان کی سبکی ہوئی ہے وہاں نوجوان نسل کو کچھ سیکھنے نہیں بلکہ بگڑنے کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔وقت کا انتظار کریں ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئندہ 2018 کے متوقع انتخابات میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے لندن پہنچ کر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں آئیے ہم تعمیری بات کریں انہوں نے کسی قسم کی مخالفت میں بیان نہیں دیا۔دراصل ہمیں اپنے ملک کو بنانا اور سنوارنا ہے اس مقصد کے لئے تعمیری سیاست کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے جبکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوان نسل ملکی حالات سے عدم اعتماد اور انتشار کا شکار ہے۔ پاکستان میں ایک مزدور سے لے کر دیگر تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد حالات کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں ان حالات میں سیاسی پنڈتوں کو چاہیے کہ وہ تعمیری سیاست کریں نوجوان نسل کو اخلاقی تربیت دیں ایسے افراد کو قومی دھارے میں شامل کریں جو ملک و قوم کا درد رکھتے ہوں پاکستان میں اور پاکستان سے باہر ایسی دیانت دار مخلص شخصیات موجود ہیں جنہیں قومی اور ملکی خدمت کیلئے موقع دیا جاسکتا ہے۔ صدر الدین ہاشوانی ہاشو گروپ کے ذریعے سینکڑوں منصوبے شروع کیے پاکستان سے بیروزگاری کے خاتمے میں کردار ادا کیا پاکستان کو سیاحوں کی آماجگاہ بنانے میں کام کیا، غربائ، مساکین کی داد رسی کی این جی اوز کے ذریعے پاکستان کی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے جدوجہد کی ایسی شخصیات بے لوث اور محبت سے سرشار ہوکر ملکی و قومی خدمت کرسکتے ہیں جن کے نزدیک روپیہ نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا حاصل کرنا اہم ہوتا ہے۔صدرالدین ہاشوانی جیسی شخصیات ملک پاکستان کو ہر جگہ نمایاں اورخوبصورت دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں ہمیں بھی چاہیے کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں اورانہیں وہ مقام دیں جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔ایسی شخصیات ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں جو لالچ اور اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر ملک اور قوم کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔