ممنوعہ زون میں گھر کسی جج کا ہو یا جرنیل کا بلا امتیاز کاروائی ہونی چاہئے: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے مارگلہ کودیگر پہاڑیوں میں درختوں کی کٹائی، سٹون کریشنگ،غیر قانونی تعمیرات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں فاضل عدالت کے حکم امتناعی کے باجود مارگلہ نیشنل پارک کی حدود میں تعمیرات اوردرختوں کی کٹائی پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ ممنوعہ علاقوں میںگھر کسی جج، جنرل یا عام شہری کا ہو بلا امتیاز کارروائی کی جائے اور اگر قوانین کا اطلاق نہیںکیا جاسکتا تو پھر انھیں ختم کردیا جائے، عدالت غفلت کے مرتکب متعلقہ اداروں کے آفسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے گی، ان آفسران کو تو سیٹوں پرہونا ہی نہیں چاہئے کیونکہ ان کی ناہلی کے باعث غیر قانونی اقدامات ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میںوی آئی پیزکو تحفظ فراہم کے لیئے کنٹینرز و دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے ’’وار ژون’‘ بنادیا گیا ہے،کسی بھی وجہ سے سڑک پر وی آئی پی کی گاڑی آدھا منٹ کھڑی ہوجائے تو کہرام مچ جاتا ہے۔ عدالت نے متفرق ہدایت دیتے ہوئے وفاق ،پنجاب حکومت، سی ڈی اے ، آئی سی ٹی، ڈی جی ایف آئی اے سے ایک ہفتے میں پیش رفت رپورٹس طلب کرلی ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے واضح کیا ہے کہ حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی لیکن پہلے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف انضابطی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے ایمبیسی روڈ کی توسیع کے لئے درختوں کی کٹائی کے حوالے سے مفصل رپورٹ طلب کرلی اور ڈی جی ایف آئی کو ہدایت کی کہ وہ انکوائری کرے کہ درختوں کی کٹائی میں کس کا کیا کردار ہے۔ عدالت نے وفاقی دارلحکومت کے ممنوعہ علاقوں میں زمین کی لین دین پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے ابزرویشن دی کہ لین دین کے لئے متعلقہ ریونیو افسران ذمہ دار ہوں گے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت، سی ڈی اے اور آئی سی ٹی کو نہ قانون اور نہ عدالت کی پرواہ ہے، انھیں یہ غلط فہمی ہے کہ کوئی ان سے نہیں پوچھ سکتا۔ انھوں نے کہا فیڈریشن، سی ڈی اے اور آئی سی ٹی کو شرم حیا نہیں جو وفاقی دارلحکومت میں قانون کا اطلا ق نہیں کرسکتے، قانون کی کسی کو پرواہ نہیں ہمیں دفن کرنا چاہتے ہیں، ہمارے احکامات کی خلاد ورزی ہورہی ہے اور نہ وفاقی حکومت اور نہ ہی سی ڈی اے کچھ کررہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا اگر اس شہر کو جدید خطوط پر نہیں چلا سکتے تو کم ازکم موہن جوداڑو کی طرز پر چلایا جائے۔ جسٹس قاضی نے کہا وفاقی دارلحکومت کو وی آئی پیز کا شہر بنادیا گیا ہے، پیدل چلنے والوں کے لئے کوئی راستہ موجود نہیں، اتنے کنٹینرز رکھ دیے گئے ہیں جس سے وفاقی دارالحکومت وار زون لگ رہا ہے۔ جمعرات کو از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی تو درخواست گزار روئیداد خان نے کہا کہ عدالتی احکامات کے باجود نیشنل پارک میں تعمیرات ہورہی ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ڈائریکٹر جنرل یزنٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ 2016میں سپریم کورٹ کی طرف سے حکم امتناعی جاری ہونے کے بعد مارگلہ نیشنل پارک کی حدود کے اندر بااثر افراد نے کوٹھیاں بنائیں اور ہوٹل تعمیر ہوا۔اس دوران عدالت نے پابندی والے علاقوں میں زمین کے لین دین پر بھی پابندی عائد کر تے ہوئے کہنا تھا کہ زمینوں کا لین دین یا تعمیرات ہوئیں تو متعلقہ ریونیو افسران کیخلاف کارروائی ہوگی۔ عدالت نے شکرپڑیاں سے متعلق کیس الگ کر تے ہوئے دفترکو ہدایت کی کہ شکر پڑیاں سے متعلق کیس آیندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے ۔ جسٹس فائز عیسی کاکہنا تھا کہ اسلام آباد میں پیدل چلنے کیلئے فٹ ہاتھ نام کی چیز ہی نہیں ہے صرف قیمتی گاڑیاں رکھنے والوں کی فکر کی جا رہی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ سی ڈی اے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نہیں بلکہ کیپٹل ڈسٹرکشن اتھارٹی ہے، عدالت نے پابندی لگائی تو تعمیرات مزید تیز ہوگئیں،اس صورتحال پر حکومت، اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے کو شرم آنی چاہیے۔ ایسے اقدامات پر سی ڈی افسران کو نشان پاکستان کی سفارش کرنی چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے افسران کو بتا دیں کہ وہ حرام کھا رہے ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ عدالتی حکم عدولی کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ استفسارکیاکہ ہمیں بتائیں درخت کاٹنے پر کس کو جیل بھیجیں،کیا سی ڈی اے کو تنخواہ ماحول کو تباہ کرنے کیلیے دی جاتی ہے؟۔ جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ سی ڈی اے افسران نے حرام خوری چھپانے کیلیے درختوں کی کٹائی کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔