جگنو محسن کا شمار کامیاب خواتین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جس شعبے میں قدم رکھا کامیابی حاصل کی۔ بات پرنٹ میڈیا کی ہو یا الیکٹرانک میڈیا کی انہیں دونوں پر دسترس حاصل ہے۔ صحافتی خدمات کے صلے میں کئی ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ ہر وقت کچھ نیا بامقصد اور بامعنی کام کرتے رہنے کی جستجو نے انہیں متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زندگی کو بامقصد بنانے کی جستجو ہی ہے جس نے جگنو محسن کو صحافت، خاندانی کاروبار اور زندگی کی تمام آسائشیں ہونے کے باوجود بھی لاہور سے ایک سو پندرہ کلو میٹر دور اپنے آبائی علاقے شیر گڑھ سے تعلق کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جگنو محسن کا اپنے آبائی علاقے سے تعلق مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ایک مالدار خاتون ہیں، پیسے کی ریل پیل ہے، عزت دولت اور شہرت سب کچھ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ غلط بھی نہیں۔ بالخصوص موجودہ دور میں وہ خود ہی نہیں انکے خاندان کا ہر فرد کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ ان کی زندگی کے ساتھی نجم سیٹھی بھی معروف، کامیاب شخصیت اور ان دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ بیٹا علی سیٹھی نوجوانوں کا پسندیدہ گلوکار جبکہ بیٹی میرا سیٹھی بھی ماڈلنگ اور اداکاری میں کامیابیوں کے سفر پر ہیں یوں جگنو محسن ایک بھرپور اور کامیاب زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہونگی لیکن جب ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گذارا جائے بات چیت کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کاروبار، صحافت اور پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ اب تک اصل کامیابی کی تلاش میں ہیں۔ ایسی کامیابی جس سے ملک اور پاکستان کی عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے آنیوالی نسلوں کے لیے زندگی آسان اور محرومیوں کا داستان نہ ہو۔ اس مقصد کے تحت ان دنوں وہ اپنے آبائی علاقے میں صحت، تعلیم، کھیل اور مختلف شعبوں میں عوامی مسائل حل کرنے کے لیے "محسن ٹرسٹ" اور "داود بندگی ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ" کے پلیٹ فارم سے فلاحی کام کر رہی ہیں۔ فلاحی کام کرتے کرتے اب ان کا ذہن سیاست کی طرف بھی ہے وہ آئندہ عام انتخابات ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آنے کا ارادہ کر چکی ہیں۔ حالانکہ خصوصی نشستوں پر آسانی سے منتخب ہو سکتی ہیں۔ سیاسی کیرئیر شروع کرنے کا مقصد بھی وہ عوام کی خدمت اور روایتی سیاست کے خاتمے کی جدوجہد ہی بتاتی ہیں۔
1980 میں جگنو محسن کے والد سید محسن نے شیر گڑھ کے محروم عوام کے لیے محسن ٹرسٹ قائم کیا۔ اس ٹرسٹ نے سب سے پہلے علاقے میں شیر شاہ سوری کے دور کی مسجد کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لیے سب سے پہلا سکول بھی قائم کیا۔ ستائیس سال کے عرصے میں قائم کیے جانیوالے بتیس سکولوں میں اس وقت چار ہزار سے زائد طلبا علم کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں اس میں لڑکیوں کی شرح پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں پہلی سے بارہویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ سائنس اور کمپیوٹر لیب بھی موجود ہے۔ اہل علاقہ اور طالبعلموں کے لیے سکول میں صاف پانی کا پلانٹ بھی لگایا گیا ہے۔ ڈسپنسری، آئی کلینک، گائنی سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ محسن ٹرسٹ کے بعد اب داود بندگی ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ قائم کر کے فلاحی کاموں کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔ تین لنگر خانے قائم کیے گئے ہیں جہاں ہزاروں افراد کو روزانہ اچھا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ خواتین کو بااختیار اور ہنر مند بنانے کے لیے روایتی کھدر بنانے، قالین بافی، روئی کی کتائی و بنوائی کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اہل علاقہ کے لیے ایک تفریحی مرکز قائم کرنے کے ساتھ دیگر اہم منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ اور اب انہوں نے رینالہ خورد میں ایک کرکٹ ٹورنامنٹ بھی شروع کروا دیا ہے جگنو بتا رہی تھیں کہ نوجوانوں کو جب اپنے سامنے کھیلتا دیکھتی ہوں تو جذبات ناقابل بیان ہیں۔ ایسے نوجوان جنہیں کوئی موقع نہیں ملتا، جنہیں دھتکارا جاتا ہے، آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے، صلاحیتوں کے اظہار کا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے ان بچوں کو کرکٹ کی طرف لانے کا مقصد خوشیوں کا سامان مہیا کرنا ہے۔ کرکٹ اس ملک کی عوام کو متحد رکھنے، ان میں جوش وجذبے کو جواں رکھنے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ میرے لیے اپنے ملک اور اس کے نوجوانوں کے چہروں پر خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ میں نئی نسل کو شعور دینے انکا طرز زندگی بلند کرنے انہیں اچھی تعلیم اور صحت دینے کی جدوجہد میں ہوں اسی نیت کے ساتھ کام کر رہی ہوں۔ سوشل ورک سے عملی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ بھی منتخب نمائندوں کی اپنے ووٹرز کے ساتھ بدسلوکی پر کیا ہے۔
جگنو محسن ایک نیک مقصد کے لیے میدان عمل میں ہیں۔ وہ سیاست میں مافیا اور روایتی سیاست کے خلاف ہیں ان کے لیے سب سے بڑا ہدف اگر الیکشن ہوتے ہیں تو ان میں کامیابی اور پھر اپنے حالیہ موقف پر قائم رہنا ہے۔ ویسے ہر پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ وہ معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرے۔ کوئی مالدار ہے صاحب حیثیت ہے تو اس پر دوہری ذمہ داری ہے۔ مٹی کا قرض سب پر ہے اور سب کو اس قرض کی ادائیگی کا سامان کرنا چاہیے۔ جگنو محسن نے رینالہ خورد میں سپانسرز کی مدد سے کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا ہے تو برسوں سے کرکٹ کروانے والوں کو سپانسرز کیوں نہیں ملتے۔ دعا ہے کہ وطن عزیز اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام کے لیے فلاحی کام کرنیوالوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں اور ہمارا نوجوان منفی سرگرمیوں کے بجائے تعلیم اور کھیل کے میدانوں سے جڑا رہے۔ نجم سیٹھی اور جگنو محسن دونوں بڑے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نجم سیٹھی کی کامیاب شخصیت کے پیچھے بھی جگنو کا ہاتھ ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024