ماہ صفر… جاہلانہ رسومات و اعتقادات
بابو عمران قریشی
اسلامی کیلنڈر کے حوالے سے صفر المظفرکا مہینہ ایسا ہی محترم و مکرم ہے جس طرح کے دوسرے مہینے ہیں۔ تا ہم بعض مہینوں کی ان میں ہونے والے واقعات اور عبادات کی وجہ سے خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح شعبان کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا "شعبان میرا مہینہ او ر رمضان اللہ کا مہینہ ہے"۔ اسی طرح شوال اور حج کے پہلے دس دنو ں کو شہرِ حج یعنی حج کے مہینے کہا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے بعض مہینوں کی خصوصیات ضرور بیان ہوئی ہیں۔ لیکن کسی مہینے کی قدر و منزلت گھٹا کر اِسے منحوس نہیں سمجھا گیاجس طرح کے بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان ماہ صفر کو سمجھتے ہیں۔اسلام کا سورج طلوع ہونے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ طرح طرح کی توہم پرستی کا شکار تھے۔ کسی خاص مہینہ سے ہی نہیں بعض جانوروں، درختوں اور دنوں کو محترم اور بعض کو منحوس خیال کرتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی توہم پرستی عروج پر تھی۔ زیادہ عرصہ ہندوانہ ماحول میں رہ کر بعض جاہلانہ رسومات مسلمانوں کے اندر بھی رواج پا چکی تھیںجن کو ایمان کا جزو سمجھا جانے لگا تھا۔ منگل اور بدھ کے دن کو منحوس سمجھ کر اُس دن کپڑے دھونا یا دوسرا کوئی کام کرنا سراسر نقصان سمجھا جاتا تھا۔ ان دنوں میں سفر اختیار کرنا اور وہ بھی پہاڑی علاقوں کی طرف منحوس تصور کیا جاتا تھا۔ پنجابی میں کہا جاتا تھا (منگل بدھ نہ جاہئیے پہاڑ، جتی بازی گئے ہار)یعنی منگل اوربدھ کو جو پہاڑی علاقوں کی طرف سفر کرے گا وہ ہر طرح سے ناکام ہو گا۔شادی بیاہ کے دن مقرر کرتے وقت منگل بدھ کے دن بھی منحوس سمجھتے جاتے تھے۔ بچیوں کی رخصتی روک لی جاتی تھی۔ گھر سے نکلتے وقت اگر کوئی کالے رنگ یا کم ذات شخص مل جاتا تو سفر ملتوی کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح کئی ان گنت رسومات اور بدعات ہندوستانی مسلمانوں میں رائج تھیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان غیراسلامی رسومات کو ختم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ۔ سب سے پہلے کلام مجید کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ گو کہ لوگوں نے بہت مخالفت کی لیکن آپ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ موت پر جو غیر اسلامی رواج تھے اُن کو ختم کیا۔ پھر بھی ہندوانہ رواج آج بھی مسلمانوں میں باقی ہیں جو دیوالی، ہولی وغیرہ کی شکل میں شب برات اور شادی بیاہ کے موقعوں پر شان و شوکت سے منائی جاتی ہیں۔ اسلامی تہواروں میں جہاں عبادت کرنے کا ذکر اور تاکید کی گئی ہے وہاں بدقسمتی سے ان تہواروں کو جاہلانہ رسومات کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ ماہ صفر المظفر کے متعلق بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس مہینہ میں خصوصاً مہینے کے پہلے تیرہ دنو ں میں پریشانیاں ہی پریشانیاں ہوتی ہیں اور ہر طرح کی مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض لوگ صفر میں شادی اس لئے نہیں کرتے کہ دلہا یا دلہن جلد فوت ہو جائے گا۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ کئی لوگوں نے اس مہینہ میں شادی کی اور وہ کامیاب ثابت ہوئی۔ بعض مقدمات کے فیصلے حق میں ہوئے۔ جہاں تک شادی بیاہ کا تعلق ہے آپؐ کا حضرت صفیہ ؓ سے نکاح اسی مہینہ میں ہوا۔ حضرت فاطمہ ؓکا نکاح بھی صفر کے مبارک مہینہ میں ہی ہوا تھا۔ انسانی زندگی میں اچھے اور بُرے حالات آتے جاتے رہتے ہیں۔ خیر اور شر کا پیدا ہونا صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جو روایات اس ماہ صفر کے منحوس ہونے میں بعض کم علم لوگ پیش کرتے ہیں وہ مستند نہیں ہیں۔ عام حالات میں بعض لوگ کسی خوشی یا غمی کو کسی واقعہ یا دن کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ۔جو کسی کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتاہے۔ایک حکمران شکار کے لئے نکلا تو ایک بدشکل انسان سامنے آ گیا۔ ضعیف الاعتقاد حکمران نے اسے منحوس سمجھا اور اسے صبح صبح سامنے آنے کی سزا کا حکم ویا۔ لیکن اُس دن اُسے شکار پہلے کی نسبت زیادہ ملا تو اُس شخص نے سوال کیا کہ صبح سویرے میں آپ کو ملا تو آپ کو کامیابی ہوئی اور مجھے آپ ملے تو مجھے سار ا دن مصیبت میں گزارنا پڑا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ہم دو میں سے منحوس کون ہے۔ ماہ صفر کے بارے میں بہت سی من گھڑت روایات ، رسومات اور بدعات مشہور ہیں۔ بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ اس مہینہ کے آخری چہار شنبہ یعنی بدھ کو آپؐ نے غسلِ صحت فرمایا تھا اس لئے وہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ بعض لوگ طرح طرح کے وظیفے پڑھتے ہیں تا کہ بلائیں ٹل جائیں۔ وظائف کا پڑھنا اچھی بات ہے لیکن اس ماہ کے ساتھ منسوب کر کے اہتمام کرنا ضعیف الاعتقادی ہے۔ بعض والدین بچوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دیتے تا کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے۔ بعض لوگ صفر کے آخری بدھ کو بہت ہی اہمیت دیتے ہیں اور اس دن صدقہ خیرات کرنا گویا پریشانیوں سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔ اس ماہ کے آخری بدھ کو بعض لوگ (چُوری روزہ) کہتے ہیں اور بہت ہی اہتمام کے ساتھ دیسی گھی کی چُوری تیار کر کے تقسیم کرتے ہیں۔ آپؐ نے ان تمام بدعات و رسومات کو یکسر ختم کیا اور صرف اللہ پر بھروسہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ آج ہمیں بھی چاہئیے کہ غیر اللہ کا خوف اور ڈر دل سے نکال کر صرف اللہ کا ڈر اور خوف دل میں رکھیں اور صرف یہ عقیدہ رکھیںکہ وہ ہمارا خالق اور مالک ہے اور اس کے حکم کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اور توہم پرستی غیر مسلموں کا شیوہ ہے ہمارا نہیں۔