ابھی الیکشن میں کئی مہینے پڑے ہیں مگر پاکستان کے تمام حلقوں میں ایک بحث چل پڑی ہے کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے حوالے سے لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہیں اس لئے اس وقت باقاعدہ طور پر اگلے وزیراعظم کی تلاش جاری ہے۔
پیپلز پارٹی کے سندھ میں صوبائی وزیر محترم منظور وسان کو سابقہ دور میں بہت سے خواب آیا کرتے تھے۔ لیکن اب شاید انہیں سمجھ آگئی ہے کہ ان کے خواب دراصل جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے سپنے تھے جن کی تعبیر ممکن نہیں تھی ۔ویسے بھی کہا جاتا کہ انسان کو رات سوتے وقت خواب میں بھی وہی نظر آتا ہے جو وہ دن بھر سوچتا رہتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی روح اسے اگلے منظر نامے سے آگاہ کرتے ہوئے یہ خبر دے کہ آئندہ دنوں میں کیا ہونے والا ہے تاہم لگتا ہے اب محترم منظور وسان خوابوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آرہے ہیں ۔اب ان کو سمجھ آرہا ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے صرف آنکھوں میںحسین دنوں کے خواب سجانے ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ خواب کو سچ کرنے کے لئے محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ خوابوں سے حقیقت کا سفر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لئے قوتِ ارادی اور مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نکتے کو نظر میں رکھتے ہوئے اب ایک نئی پیشین گوئی سننے کو ملی ہے کہ اگلا وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ہو گا۔ شہباز شریف کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے دیکھنا صرف کسی ایک بندے کی خواہش نہیں ہے ۔بلکہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کی باگ دوڑ کسی ایسے جہاں دیدہ شخص کے ہاتھ میںہو۔ جو نہ صرف اندرونی سیاست کو سمجھتا ہو۔اپنے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی قائم رکھنا جانتا ہو ۔اقتدار ملنے پر جس کی توجہ عوام کی حالت سدھارنے پر مرکوز رہے۔ جو صرف اقتدار کو عوامی خدمت کا جذبہ نہ سمجھتا ہو بلکہ اس کے کردار و عمل سے نظر آئے کہ وہ واقعی ایک مسلم ریاست کا حاکم ہے ۔پاکستان کا کامیاب وزیر اعظم بننے کے لیے صرف ملکی سیاست میں کامیابی کافی نہیں ہے ۔بلکہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق فیصلہ سازی کرنے کا حوصلہ بھی چاہیے ۔پاکستان کو اللہ نے ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے ۔اس کے پہاڑ حقیقت میں سونا اگل سکتے ہیں ۔اس کے کھلیان ساری دنیا کے پیٹ بھر سکتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کے اردگرد بھیڑیوں کے غول چکر لگارہے ہیں ۔ہماری زرا سی کوتائی زرا سی لاپروائی ہمیں کسی تاریک راہ کا مسافر بنا سکتی ہے ۔ایک طرف افغانستان ہے جسے ہم برادر مسلم ملک تسلیم کرتے ہیں۔افغان بچے پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔بڑے ہوتے ہیں بہت سوں کی روزی روٹی بھی ادھر سے ہی چلتی ہے مگر ہندوستان کی آشیر باد والوں کو جب کبھی افغانستان میں کوئی اعلیٰ مقام ملتا ہے تو وہ پاکستان کے خلاف بات کرنے کے لیے پہلی صرف میں کھڑا نظر آتا ہے ۔ایران کی اپنی ایک خاص مذہبی شناخت ہے۔ اس کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ان کے من چاہے لوگ طاقت میں آئیں ۔ پاکستان کے ایک طرف عظیم ملک چین ہے جس کی دوستی پر ہمیں فخر ہے کیوں کہ آج اس دوستی کے چرچے پوری دنیا میں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اس دوستی کے رنگ نکھر کر زیادہ واضح ہو چکے ہیں۔ کچھ کچے رنگ ہوتے ہیں جو بارش اور دھوپ میں اتر جاتے ہیں مگر چین کی دوستی کا رنگ مستقل ہے۔ دو طرفہ بات ہو یا عالمی فورمز ٟچین نے ہر کہیں پاکستان کی حمایت میں کھل کر بات کی ہے۔ پاکستا ن کے مشرق میں بھارت ہے جس کے حکمرانوں نے ہمیں کبھی دل سے تسلیم کیا ہی نہیں ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہمارے پڑوسی ملک پاکستا ن کے خلاف محاذ گرم رکھتے ہیں۔ پھر بدقسمتی سے انہیں ہمارے اندر سے کچھ ایسے آلۂ کار بھی میسر رہتے ہیں جو ان کے عزائم کو مکمل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ عمران خان نے ابھی چند ماہ پہلے ہی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ انہیں جب KPK میں حکومت ملی تو بہت دن انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ انہیں کرنا کیا ہے؟ اسی سے آپ ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک صوبے کے انتظامات میں کامیاب نہیں ہو سکے تو پورے ملک کو کیسے سنبھالیں گے؟ ویسے ان کا یہ بیان بھی سمجھنے والوں کے لئے کافی ہے کہ شکر ہے ہمیں 2013ء میں مرکز میں حکومت نہیں ملی۔ کبھی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ایسا بیان ہیں دیتا کیوں کہ سربراہ وہی بنتا ہے جس میں حکومت کرنے کی اہلیت ہو اور معاملات پر قابو پانا جانتا ہو۔ پیپلز پارٹی اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پچھلے پچاس سالوں سے پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو بڑا اہم مقام حاصل رہا ہے ۔عوام کو سیاسی شعور دینے میں بھٹوز کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔مگر اب یہ پارٹی زرداری صاحب کی پارٹی بن چکی ہے ۔اور جب تک زرداری پارٹی لیڈ کرتے رہیں گے ۔اس پارٹی کے لیے اپنا وجود بچانا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جائے گا ۔ اس صورت حال میں شہباز شریف واحد سیاست دان ہے جن کا کاروبار اور سرمایہ بھی اسی ملک میں ہے اور جن کی تمام تر توجہ کا مرکز بھی یہ ملک ہے۔ اس لئے اس بار تمام صوبوں کی عوام انہیں ملک کی خدمت کا موقع دینا چاہتی ہے کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب کی طرح پورا پاکستان ترقی کرے۔