پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ پامال ہو چکا ہے برباد ہو چکا ہے اکثر سوچتا ہوں اگر یہ عدالتیں نہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟ اگر سپریم کورٹ نہ ہوتی تو یہ بے لگام وحشی دردندے کیا حشر برپا کر دیتے، یہ بے لگام افسر شاہی کیا کیا ظلم نہ ڈھا دیتی ان ظالموں اور جابروں کی راہ میں واحد رکاوٹ یہی ’’بْری بھلی‘‘ عدالتیں ہیں ۔اللہ بھلا کرے افتخار چودھری کا جو شکایات سیل بنوا گئے ورنہ مظلوم کی داد فریاد سننے والا کوئی نہیں،انتظامی ڈھانچہ پامال ہو چکا ہے ورنہ اس طرح کے معاملات کے انصاف کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے آنا اور اس پر کارروائی چہ معانی دارد؟ ’’سندھ یونیورسٹی‘‘ میں طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کے معاملے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے، دو طالبات کے خطوط رجسٹرار سندھ یونیورسٹی سے 7 نومبر تک رپورٹ طلب کرلی ہے۔سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو ملنے والی شکایت کے مطابق جامعہ کی دو طالبات نے الزام عائد کیا ہے کہ دو اساتذہ نے مبینہ طور پر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ انہیں ایکسٹرا کلاس کے بہانے بلایا گیا اور جب وہ پہنچیں تو دونوں اساتذہ مبینہ طور پر نشے کی حالت میں تھے۔
مادر علمی میں طالبات سے روحانی باپ کا مرتبہ پانے والے اساتذہ کے ہاتھوں یہ بے حرمتی خوں کے آنسو رلا رہی ہے اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے کسی نواحی گاؤں میں دیرینہ دشمنی پر جس طرح 16 سالہ بچی کو گلی کوچوں میں برہنہ ایک گھنٹے تک گھمایا گیا وہ بھی شرمناک ہے، کیا یہ انصاف کے نعرے لگانے والے کے پی کے حکمرانوں کیلئے شرم کا مقام نہیں۔ سندھ یونیورسٹی کے شرمناک واقعے کی جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اس میں اوپر سے نیچے تک سارا عملہ اور اساتذہ ’’عظیم مادر علمی‘‘ کی عزت وناموس کو داغ دار ہو نے بچانے کے نام پر مظلوم بچیوں کو خاموش کرانے پر زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی جو ترقی پسندی اور روشن خیالی کی علامت رہی ہے آج کل اساتذہ کی طرف سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے سنگین الزامات کی زد میں ہے۔شاید مخصوص پس منظر کی وجہ سے این جی اوز نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی کہ سندھ یونیورسٹی کے دامن پر کوئی داغ نہ لگ جائے۔کچھ عرصہ قبل اس یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک طالبہ نائلہ رند کی پنکھے میں لٹکتی ہوئی لاش کی ملی تھی۔ اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹی کے استاد طالبات کو پاس کرنے کے عوض انکے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔سندھ یونیورسٹی کی ماسٹرز کرنے والی دو طالبات نے سادہ کاغذ پر فریاد لکھ کر چیف جسٹس سپریم کورٹ ، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، وفاقی محتسب ، وزیر اعلیٰ سندھ ، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی، بختاور بھٹو اور متعدد اساتذہ کو ارسال کی، مگر کسی نے فریاد نہیں سُنی۔ان مظلوم بچیوںکا کہنا ہے کہ ماسٹرز کرنیوالی کئی طالبات کو ان کے ایک دو نہیں بلکہ کئی اساتذہ،جن میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی شامل ہیں نے جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے ایک ماہ پہلے فریاد بھیجی ہے ، اس لیے یہ معاملہ میڈیا میں لانے پر مجبور ہیں ہماری مدد کی جائے داد فریاد سنی جائے، متاثرہ لڑکی لکھتی ہے کہ میں نے اپریل 2017 میں شکایت درج کروائی۔ وائس چانسلر کے پاس جاکر شکایت درج کروانے کے ساتھ ان کو ثبوت کے طور پر وہ ایس ایم ایس بھی دکھائے جو ٹیچر نے بھیجے تھے۔ وائس چانسلر نے اس معاملے پر کارروائی کرنے کا وعدہ کیا مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اساتذہ کے ایک گروپ نے وائس چانسلر کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ٹیچر کے خلاف کوئی ایکشن لیا تو احتجاج کیا جائیگا۔ اسکے فورا بعد یونیورسٹی کے ایک انتظامی آفیسر نے سندھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم میری بہن سے رابطہ کرکے سمجھوتہ کرنے کو کہا اور انکار کی صورت میں معاملہ میرے والد کو بتانے کی دھمکی دی۔ جو دل کے مریض ہیں اور جن کی حال ہی میں سرجری ہوئی ہے۔
دوسری طالبہ کا کہنا ہے کہ میں نے بھی اسسٹنٹ پروفیسر کیخلاف بلیک میل کرنے کی شکایت کی اور جامشورو پولیس اسٹیشن پر ایف آئی آر بھی درج کروائی، ساتھ ہی اپنے بھائی کیساتھ جا کر وائس چانسلر سے بھی شکایت کی، مگر ایکشن لینے کیلئے ایف آئی آر واپس لینے کی شرط رکھی۔ جس کے بعد تمام ٹیچرز نے میری ایم فل کی سپروائزری کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں نے انکے ساتھی استاد کیخلاف شکایت کی ہے۔ان دونوں بہادر لڑکیوں نے بتایا ہے کہ اگست میں ڈائریکٹر اسٹیج نے ہاسٹل میں رہنے والی ہم کلاس فیلوز کو شام کے وقت اپنے گھر پر بلایا کہ چودہ اگست کے سلسلے میں جشنِ آزادی کی ریہرسل کرنی ہے۔ وہاں انکے کچھ دوست اور کچھ ٹیچر پہلے سے موجود تھے۔ سب کے سب نشے میں تھے۔ انھوں نے وہاں ہم سب کو قابل اعتراض حرکات کرنے پر مجبور کیا۔ دوسرے دن ہم سب لڑکیاں وائس چانسلر کے پاس شکایت کرنے پہنچیں تووہ ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔ان دو بچیوں نے تو صرف ہمت کی ہے ورنہ سرکاری یونیورسٹیز میں طلبہ یونینز نہ ہونے کی وجہ سے کچھ اساتذہ نے اس معزز پیشے کو مکروہ خواہشات کی تکمیل کیلئے ہتھیار بنا لیا اچھے نمبر دینے کے عوض جنسی تعلقات کا مطالبہ وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یونیورسٹی کے کچھ استاد یونیورسٹی کی عزت کی خاطر معاملہ دبانے کی کوشش میں ہیں۔ سندھ سے محبت کرنیوالے کچھ نادان سندھ کی مادر علمی یونیورسٹی کی بدنامی کے خوف سے معاملہ اچھالنے سے منع کر رہے ہیں۔ بھلاکوئی ان سے پوچھے کہ سنگ و خشت کے درو دیوار کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے عزت توانسانوں کی ہوتی ہے ؟ وہ استاد بھی اس جرم میں شریک تصور سمجھے جائیں جنہوں نے یہ معاملہ دبانے کیلئے وائس چانسلر پر دبائو ڈالا۔ سندھ کے لوگوں کی نظریں انصاف کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان پر ہیں۔ان حالات میں کون اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایسی درس گاہوں میں بھیجے گا جہاں اساتذہ کے روپ میں جنسی درندے بیٹھے ہوں گے۔