لاہور، بہاولنگر، پاکپتن، ٹوبہ، بھکر سمیت ملک کے کئی شہروں میں سموگ سے آنکھوں میں جلن، بیماریاں پھیلنے لگیں۔لاہور میں پانچ سو افراد کے ہسپتالوں میں داخل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ طبی ماہرین نے عوام کو غیر ضروری گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت کر دی۔ مقررہ معیار کے مطابق فضا میں آلودگی کی شرح 80 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن لاہور کے بعض علاقوں میں یہ 200 سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے نہ صرف 6 جدید ترین ائیر مانیٹرنگ نظام نصب کیے گئے ہیں بلکہ دیگر اقدامات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
سموگ کا یوں وسیع و عریض علاقوں میں چھا جانا کوئی ناگہانی طور پر نہیں ہوا۔ چند سال سے سموگ تواتر کے ساتھ چھا جاتی ہے۔ اس سے نجات بارش ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار کی جائیں تو اسکے فضا میں تسلط کا امکان ہی نہیں ہوتا۔ اسکے اسباب میں فیکٹریوں، گاڑیوں، دھان کی باقیات جلانے سے پیدا ہونیوالی آلودگی شامل ہے، شہروں میں پرانے ٹائر جلاکر اس سے تاریں اور تیل کشید کیا جاتا ہے مگر اس سے پیدا ہونیوالی تباہ کن آلودگی سے یہ کام کرنیوالے لوگ اور متعلقہ ادارے صرفِ نظر کرتے ہیں جو مجرمانہ غفلت سے کم نہیں۔ سڑکوں کی بے جا اکھاڑ پچھاڑ ، درخت کاٹنے اور انکی جگہ نئے نہ لگانے سے بھی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ متعلقہ اداروں کو سموگ ہی جگاتی ہے۔ افراتفری میں چالان کئے جاتے ہیں ‘ وارننگ دی جاتی ہے۔ اشتہارات کے ذریعے آگاہی مہم کا آغاز ہوتا ہے مگر یہ سب پانی سر سے گزرنے اور بعد از خرابی ٔ بسیار ہوتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں متعلقہ اداروں کی نااہلیت اور غفلت پر ان کو ساہی جاسکتا ہے۔ حکومت کو ایسے اداروں کے ذمہ داروں کیخلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔ آج چھائی ہوئی سموگ سے نجات کیلئے قوم بارانِ رحمت کی دعا کرے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024