بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما میر قاسم کو بھی سزائے موت کا حکم
ڈھاکہ/ لاہور (اے ایف پی+ آئی این پی+ خصوصی نامہ نگار) بنگلہ دیش میں جنگی جرائم سے متعلق خصوصی ٹریبونل نے 1971 کی جنگ میں پاک فوج کی مدد کے الزام میں ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت، جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما میر قاسم علی کو سزائے موت سنا دی۔ دوسری جانب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت دینے کے خلاف ملک بھر میں ہڑتال کی گئی۔ اتوار کو بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق ڈھاکہ میں جب جج عبیدالحسن نے پرہجوم کمرہ عدالت میں فیصلہ سنایا تو میر قاسم علی پرسکون انداز میں بیٹھے رہے۔ میر قاسم جماعت اسلامی کی اعلیٰ ترین پالیسی کونسل کے رکن ہیں اور پارٹی کی مالی امداد کرنے والے اہم ترین رہنما تصور کئے جاتے ہیں۔ ٹریبونل نے میر قاسم کو آٹھ جرائم میں ملوث پایا جن میں سے دو میں سزائے موت دی گئی جن میں ایک نوجوان کو اغوا کرنے کے بعد اسے تشدد کر کے ہلاک کرنے کا جرم بھی شامل ہے۔ عدالت نے جماعت اسلامی کے رہنما کو دیگر الزامات میں 72 سال قید کی بھی سزا سنائی جبکہ میر قاسم علی کے وکیل کا کہنا ہے ان کے موکل کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اس لئے وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں اور وہ عدالتی فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت دینے کے خلاف ملک بھر میں ہڑتال بھی کی گئی۔ خصوصی نامہ نگار کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے میر قاسم علی کو بنگلہ دیش میں نام نہاد ٹریبونل کی طرف سے پھانسی کی سزا سنائے جانے پر بنگلہ دیشی حکومت کی شدید مذمت کی ہے۔ سراج الحق نے اپنے بیان میں کہا یہ نام نہاد ٹریبونل کا ظالمانہ فیصلہ ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت انصاف کا خون کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کی حکومت نے مشرقی پاکستان میں فوج کا ساتھ دینے والے محب وطن پاکستانیوں کی سزا پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، وہ چاہتی تو مجیب الرحمن، اندراگاندھی اور بھٹو کے درمیان ہونے والے معاہدے کو دنیا کے سامنے پیش کر کے پاکستان کا ساتھ دینے والے جماعت اسلامی کے لوگوں پر مقدمات کو ختم کرایا جا سکتا تھا جس میں طے کیا گیا تھا دونوں ممالک کسی پر جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلائیں گے اور نہ انتقام لیا جائے گا۔