واہگہ دھماکہ کیلئے سرحد پار سے تکنیکی مدد خارج از امکان نہیں
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان بھارت سرحد کے قریب واہگہ کے مقام پر خودکش حملہ اور المناک شہادتوں نے یاددہانی کرائی ہے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں دہشت گردوں کی کمر تو ٹوٹی ہے لیکن دہشت گردی کا عفریت مکمل ختم کرنے کیلئے طویل جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اس واردات سے یہ بھی علم ہوا پنجاب میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک نہ صرف موجود ہے بلکہ بارود تیار کرنے ، خودکش حملہ آوروں کو لانے لے جانے، ٹھہرانے، منتقلی اور دہشت گردی کی کارروائی کرنے کی صلاحیت کا بدستور حامل ہے لیکن اس نیٹ ورک کی یہ استعداد محدود ہے جس کا مئوثر سدباب کرنے کیلئے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید محنت کرنی ہو گی۔ اس المناک واقعہ کے دو مزید پہلو یہ ہیں کہ پاکستان بھارت سرحد کے اس قدر قریب پہلی بار ایسی واردات کی گئی ہے اور دوسرا یہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے اجتماع کو نشانہ بنایا گیا جس سے سرحد کے پار خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو گی، دہشت گردوں نے اس اجتماع کو فوج کا شو سمجھ کر نشانہ بنایا لیکن یہ فوج کا نہیں بلکہ عوامی شو ہوتا ہے جس میں رینجرز کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ جنداللہ کہلانے والے ایک گروپ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی جس کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ دہشت گرد اب چھوٹے گروپوں میں بٹ گئے ہیں اور بعض گروپ تو محض پندرہ یا بیس افراد پر مشتمل ہیں جن کیلئے سابق روابط کی بنیاد پر تخریب کاری کیلئے وسائل جمع کرنا مشکل نہیں ۔ جائے وقوع کے پیش نظر اس واردات کیلئے سرحد پار سے تکنیکی مدد خارج از امکان نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کو خالصتاً داخلی صورتحال سے جوڑنا سنگین غلطی ہو گی۔ایک ذریعہ کا کہنا ہے آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے کائونٹر انٹیلیجنس شعبوں کو مئوثر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔حالیہ دنوں میں کوئٹہ اور اب واہگہ پر یہ دہشت گردی کی وارداتیں اس بات کا ثبوت ہیں پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کی باقیات موجود ہیں جن کے پاس ایسی وارداتیں کرنے کی استعداد اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔