پیر ‘ 9محرم الحرام 1436ھ‘3 نومبر 2014ء
شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی برآمد کرنے کی اجازت کا مطالبہ کر دیا۔ 12 لاکھ ٹن چینی فاضل ہے۔ اس کے باوجود چینی 60 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے تو اس پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ یہی چینی چند برس قبل 30 روپے کلو تھی۔ پھر اچانک قیمتوں کو پر لگ گئے اور یہ 80 کے ہندے کو چھونے کے بعد مستقل 60 پر پہنچ گئی۔ کبھی کبھار 55 روپے ہو تو ملز مالکان پھر 60 پر لے آتے ہیں۔
اس فاضل چینی کی تھوڑی سی مقدار عوام میں فروخت کے لئے بازاروں میں لائی جائے تو قیمت 50 روپے سے کم ہو سکتی ہے مگر یہ ناجائز منافع خور شوگر مافیا کہاں ہونے دے گا۔ جو خود تو شوگر کے مریض ہیں ان کے مقدر میں چینی صرف دیکھنا لکھی ہے۔
وہ عوام کا منہ میٹھا ہوتا کہاں برداشت کر پائیں گے۔ رہی ان کی منطق کہ کاشتکاروں کی فلاح اور بہتری کے لئے وہ چینی برآمد کرنا چاہتے ہیں تو یہ بالکل غلط ہے۔
کاشتکاروں کی فلاح دیکھنا ہو تو چینی کی ملوں کے باہر سرکاری قیمت سے کم قیمت پر چینی کی خریداری اور اس قیمت کی ادائیگی میں بھی تاخیر اور فی بوری کلو کے حساب سے کم تول جیسے نادر کارناموں سے ملز مالکان کی کاشتکاروں سے ہمدردی بخوبی آ شکارا ہوتی ہے۔
کم قیمت پر گنے کی خرید اور مہنگے داموں چینی کی فروخت ایسے سنہری کارنامے ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ مگرمچھ کے آنسو بہانے والے ان ملز مالکان سے فاضل چینی خرید کر 45 روپے فی کلو کے حساب سے عوام میں فروخت کرے۔ اس سے کڑوے کڑوے ماحول میں مٹھاس گھل جائے گی اور حکومت کے خلاف کڑوی زبان بولنے والے بھی میٹھی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے۔
٭....٭....٭....٭
عمران سے مذاکرات کے لئے دل اور دروازے کھلے ہیں:پرویزرشید۔ حکومت نے ابھی کھڑکی نہیں کھولی:شاہ محمود۔ یہ دل کی کھڑکی ہو یا گھر کا دروازہ تب ہی کھلتا ہے جب نیت صاف ہو اور آگ اگلنے والی زبانیں خاموش کرائی جائیں۔ ورنہ تیل چھڑکنے والے بیانات سے تو صرف آگ بھڑکتی ہے۔ دل ٹھنڈے نہیں ہوتے۔ پرویز رشید ہوں یا شاہ محمود یہ دونوں صرف حکم کے غلام ہیں۔ میل ملاقات کا فیصلہ یا بند دروازے کی کنجی صرف اور صرف نواز شریف اور عمران خان کے پاس ہے۔ اگر یہ دونوں آج دلوں سے کدورتیں دور کر لیں۔ کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں تو صرف ایک ملاقات۔ ایک مسکراہٹ ایک معانقہ تمام کینے دور سکتا ہے کسی نے کیا خوب کہا تھا۔ ....
زندہ رہنے کے لئے تیری قسم
اک ملاقات ضروری ہے صنم
تو اب ایسی ہی ایک ملاقات کی اشد ضرورت ہے جو عمران اور نواز کے درمیان ہو۔ اور پریشان حال عوام اس ملاقات کے بڑی دیر سے منتظر ہیں تاکہ ملک کی مکدر سیاسی صورتحال میں بہتری آئے۔ نفرتوں کی دیواریں گریں۔ عمران کے بڑے بھائی مولانا قادری تو برادران یوسف کا کردار ادا کرکے عمران کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر چلے گئے۔ اب نواز شریف ہی عمران کے زخموں کا مداوا کریں۔ ان پر محبت کا مرہم رکھیں۔ عمران بھی اپنے لئے تو کچھ نہیں مانگ رہے۔ وہ بھی عوام کی بہتری چاہتے ہیں۔ تو پھر وہ بھی عوام کی بہتری اور بھلائی کی خاطر ملکی ترقی کی خاطر آگے بڑھیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ عوام کو سہولتیں دے۔ اگر عمران اور نواز شریف ملک و قوم کی فلاح و بہتری کے لئے متحد ہو گئے تو افراتفری پھیلانے والوں کا ایجنڈا خود بخود ناکام ہو جائے گا۔
٭....٭....٭....٭
غریبوں کو میں نے اسمبلی میں بھیجا:الطاف حسین۔ درست ارشاد فرمایا آپ نے۔ مگر جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ اب وہ متوسط طبقے کے غریب کہاں گئے۔ اب تو ایم کیو ایم کے ممبران اسمبلی ہوں یا عہدیداران سب خوش خوشحال نظر آتے ہیں۔ آپ تو عرصہ ہوا۔ لندن میں قدم رنجہ فرمائے بیٹھے ہیں۔ یہاں عام کراچی اور حیدر آباد کے باسیوں کا ذکر کیا کرنا۔ ان کے دن کہاں پھرے وہ آج بھی زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ البتہ ایم کیو کے ممبران عہدیداران ارکان اسمبلی سب کو پیسہ راس آ گیا ہے۔ ممبر ی راس آ گئی ہے۔ ان کے دن پھر گئے ہیں۔
الطاف بھائی ذرا کبھی غور سے اپنی ویڈیو کانفرنس میں شریک عہدیداروں کے چہرے دیکھیں سرخی و غازہ کی کرامت کے ساتھ ساتھ مالی خوشحالی کا رنگ ان کے چہروں سے چھلکتا نظر آئے گا عوام کے چہروں پر آج بھی حالات کی وہی تفسیر لکھی ہوئی ہے۔ وہ سر جھکائے آپ کا حکم سنتے ہیں۔ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ پارٹی سے وفاداری کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں مگر ان کی پارٹی گزشتہ 15 برس سے اقتدار کے ایوانوں میں رہنے کے باوجود انہیں خوشحالی کے خوابوں کی تعبیر نہیں دے سکی۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ متوسط طبقے کی باتیں سبھی کرتے ہیں مگر بہت جلد انہیں بھول جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی مہربانیوں اور پالیسیوں کی وجہ سے یہ طبقہ کب کا معدوم ہو چکا۔ ہمارے معاشرے کی اصل رونق اسی کے دم سے تھی جو کب کی دم توڑ چکی۔ اس لئے ....
خطا معاف زمانے سے بدگماں ہو کر
تیری وفا پہ بھی کیا کیا ہمیں گماں گزرے
٭....٭....٭....٭