بندہ انہیں کیا کہے جو کہتے ہیں کہ حکومت جمہوریت نہیں اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے؟ بہرحال ہم جمہوریت کے حوالے سے حُسن ظن رکھتے ہیں۔ خیر پچھلے دنوں کئی بیورو کریٹس سے بالعموم اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن سے بالخصوص ملاقات کا ”اعزاز“ حاصل ہوا۔ چونکہ آج جانا ہے کابینہ اور دھرنے کی طرف چنانچہ اتنا کہوں گا کہ پاکستان آرمی کے بعد محکمہ تعلیم پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور جدید دنیا میں سب سے زیادہ حساس بھی۔ اللہ کرے کہ‘ وزیراعظم آفس سیکرٹری فواد حسن فواد سے امداد اللہ بوسال (سی ایم بیور وکریٹ)‘ عبداللہ سنبل (سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب) اور چیئرمین پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار تک کے دل میں اتر جائے میری بات۔ تاہم....
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
اب کہانی ہے تو یہ کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کیلئے جگ ہنسائی کا سبب بننے والے خواجہ آصف وہ کہ جن کا نندی پور پاور پراجیکٹ افتتاح کے بعد دو گام نہ چلا تھا کہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہ الگ بات ہے کہ میڈیا اور لوگوں نے وہ نہ کیا جو سابق وزیر پانی و بجلی کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر ان کے بظاہر تندوتیز وزیرمملکت عابد شیر علی کہاں تھے جب بجلی کے بلوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج والے سارے مرچ مصالحے موجود تھے؟ دھرنے میں کیا گیا اعلان اگرچہ کامیاب نہ ہوا اور لوگوں نے سول نافرمانی کی جرا¿ت غلام قوم ہونے کے سبب نہ کی‘ لیکن کوئی پوچھے تو سہی ان دو راج دلاروں سے کہ عمران حان کو یہ نکتہ طشتری میں سجا کر دیا کس نے؟ جی ہاں! عمرانی کامیابی و کامرانی میں رانا ثناءاللہ جیسے نااہل صوبائی وزیر کا بھی بہت قصور تھا جو کوانٹٹی کے چکر میں کوالٹی بھول گئے۔ وگرنہ وہی حضرت عمران خان صاحب تھے جن کی 17 سال کی سیاست میں ان کا سایہ بھی ان کے ساتھ نہ تھا۔ اٹھارہویں برس میں عمران خان پر کیا اتر آیا تھا کہ نوجوان پھر پنجاب کے وہ نوجوان اس کے دیوانے ہو گئے جنہیں شہبازشریف نے گھر گھر‘ کالج کالج اور یونیورسٹی یونیورسٹی جا کر لیپ ٹاپ دیئے۔ پنجاب کے ایک مسترد شدہ وزیرتعلیم‘ مسترد شدہ بیورو کریٹ‘ توقیر شاہ اور مسترد شدہ وزیرقانون کو بتانا چاہئیے تھا کہ .... جناب میاں صاحب‘ ہمارے ممبران اسمبلی یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ میں یوں جلوہ افروز ہوتے ہیں جیسے وہاں ان کے رفقاءاساتذہ کوئی پی ایچ ڈی نہیں بلکہ مظلوم رعایا کے محکوم غلام ہوں۔“ یہ سب متذکرہ لوگوں نے وقت پر بتایا ہوتا تو عمران خان کا دھرنا دو دن نہ چلتا.... دو دن!!! (ن) لیگ والو نوجوانوں کو راضی کرو.... راضی! پھر بھی شکریہ شہبازشریف! دیر آئد درست آئد کم از کم آپ نے رانا مشہود و رانا ثناءاللہ و توقیر شاہ کو مسترد تو کیا‘ اہل ”سیاسی زبان“ کو یاد ہوگا کہ کرپشن کی بنیاد پر کے پی کے کی حکومت نے پسر آفتاب خان شیر پاﺅ اینڈ کمپنی کو مخالفتوں اور سیاستوں کے باوجود چلتا کیا تھا اور اچھا کیا تھا۔ ہاں ! اللہ بھلا کرے وزیراعظم کا انہوں نے پٹرول سستا کرایا‘ گیس سستی ہونے کے درپے ہے۔ اور اللہ بھلا کرے ٹرانسپورٹ کمپنیوں (گڈز) کا جنہوں نے کرایہ سستا کیا اور اللہ عقل دے پی آئی اے اور ریلوے کو کہ وہ بھی کرائے سستے کرکے وزیراعظم کا مقصد پورا کریں اور صوبائی وزرائے ٹرانسپورٹ کے علاوہ ریلوے وزیر سعدرفیق اور چیئرمین پی آئی اے بھی خیر میں کچھ حصہ ڈالیں۔ تیل و گیس کی قیمت کم ہونے سے ایک دفعہ خوردونوش کی تمام اشیاءمیں بھی فطری کمی آنی چاہئے۔ پھر وزیراعظم میاں نوازشریف کو ہم یہ خراج تحسین پیش کرنے پر بھی ”مجبور“ ہیں کہ انہوں نے سرکاری بھرتیوں کی پالیسی جاری کی ہے اور کہا کہ سفارش کرنے والے نااہل ہو جائیں گے۔ خدا کرے کہ کچھ وفاقی وزیر کارکردگی کی بنیاد پر نہ سہی سفارش کرنے کے تناظر میں ہی نااہل ہو جائیں....
مجھے یہ شوق ہے تجھ کو دکھاﺅں عکس ترا
تجھے یہ خوف ہے کہ کوئی آئینہ بدمست نہ ہو
بات چل رہی تھی کہ ناکام عمران خان کو کامیاب عمران خان بنانے میں زرداری کابینہ نے آغاز کیا اور موجودہ کابینہ نے انتہا کی۔ موقع کی اس فراہمی نے عمرانی سیاست کو دوام بخشا ورنہ شاہ محمود قریشی جیسے مضطرب اور سابق باغی و حالیہ داغی سیاستدانوں میں پی ٹی آئی کو چار چاند لگانے کا ہنر کہاں تھا!!! وفاقی وزیر برجیس طاہر سے کوئی پوچھے آج آزاد کشمیر میں بھی عمران عمران ہو رہی ہے وگرنہ کشمیر ہاﺅس سے مظفر آباد دارالحکومت کا فاصلہ ہے کتنے کلومیٹر؟ ہمیں معلوم ہے خواجہ آصف اور عابد شیر کو کابینہ سے نکالنا مشکل ہے‘ لیکن ردوبدل تو فرض ہو ہی چکا ہے نا‘ بحرحال رانا تنویر حسین وزیر دفاعی پیداوار (شیخوپورہ) اور برجیس طاہر (شیخوپورہ) کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ پیداوار اور صنعت کے وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کی ”برین پروڈکشن اور انڈسٹری“ میں اللہ اضافہ لائے تو لائے ورنہ اللہ ہی حافظ۔ اللہ اللہ حضرت پیر سید صدرالدین شاہ راشدی کا جتنا لمبا نام اتنی ہی لمبی مسافت والی ان کی وزارت بھی ہے۔ اس لمبائی اور چوڑائی کے باوجود عوام کوان کی وزارت نظر نہیں آتی یقینا عوام کا قصور ہے۔ اس میں پیر و مرشد کا تو قصور نہیں ہے۔ سرکار تو بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ سمندر پار تو کیا جائیں گے پچھلے دنوں لاہور میں اوورسیز کانفرنس دو تین دن چلی تھی جس میں سارا زمانہ تھا سوائے اوورسیز کے وزیر کے۔ یہ بے چارے اوورسیز والے کیا جانیں کہ پیر و مرشد ایویں ای چہرہ نہیں دکھاتے۔ لوگوں نے وزیر بدلنے کا غلط مطالبہ کیا تھا۔ کاش ان کے ساتھ وزیرمملکت کے طورپر سے جعفر اقبال جونیئر (”بلا مقابلہ“ فاتحہ قمر زمان کائرہ) ہی کو لگا دیا جاتا۔ ہم نے تو چند ماہ قبل اپنے ایک کالم میں فریاد کی تھی کہ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے آگے ایک انتہائی سیاسی زرخیزی رکھنے والے چودھری پرویزالٰہی و شجاعت حسین کا ضلع بھی ہے جہاں (ن) لیگ کو کوئی اپنا چودھری بنانا ہے جو ان چودھریوں اور کائرہ چودھری کا مقابلہ کر سکے۔ وہ اپنا ہی گجرات ہے کوئی بھارتی گجرات نہیں!!! پروفیسر احسن اقبال‘ اسحاق ڈار‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ سعد رفیق‘ خرم دستگیر اور کسی حد تک پرویز رشید کی کارکردگی ان مشکل حالات میں بہتر ہے۔ چلیں چودھری نثار علی خان کو بھی ملا لیں.... مگر محترم وزیراعظم ٹیکسٹائل انڈسٹری کے وزیر عباس خان آفریدی‘ ریاض حسین پیرزادہ (بین الصوبائی امور)‘ اور سکندر حیات بوسن (تحفظ خوراک و تحقیق) سردار محمد یوسف (مذہبی امور و حج)‘ اکرم درانی (ہاﺅسنگ ورکس) خود کہاں ہیں اور ان کی کارکردگی کہاں ہے؟؟؟ کامران مائیکل (پورٹس و شپنگ) زاہد حامد (سائنس و ٹیکنالوجی) اور عبدالقادر بلوچ (فرنٹیئر و ریاستی علاقے) پر ”عدالت“ اپنا فیصلہ محفوظ رکھتی ہے جہاں تک بات ہے وزراءمملکت کی ان میں سے انجینئر بلیغ الرحمن و عابد شیر علی کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ آگے حکومت کی مرضی۔ سائرہ افضل تارڑ (ہیلتھ سروسز)‘ بلیخ الرحمن (فیڈرل تعلیم و دیگر) اور عابد شیر علی کو کارکردگی بہتر بنانا ہوگی عثمان ابراہیم (ترقیاتی)‘ عبدالحکیم بلوچ (اطلاعات)‘ انوشہ رحمن (انفارمیشن ٹیکنالوجی) ‘ شیخ آفتاب (پارلیمانی امور)‘ جام کمال (پٹرولیم) اور امین حسنات (مذہبی امور) خوابیدہ حالتیں ہیں۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے پی کے سے بہتر لوگ دریافت کئے جائیں جو وفاقی وزیر اور وزیرمملکت کی حیثیت سے کچھ کر سکیں۔ (ن) لیگ کے پاس اچھے نوجوان ہیں اور(ق) لیگ پلٹ میں بھی ماہرین ہیں۔ یہ کہانی ابھی مکمل کریں اور وہ سب نکال دیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024