وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی اشرافیہ کے کلب کے چھوٹے سے ہال میں چیدہ چیدہ دانشور اور عسکری پس منظر رکھنے والی شخصیات برصغیر پاک و ہند میں نظریاتی صحافت کے علمبردار جناب مجید نظامی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اکٹھی تھیں ۔یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا جس کے شرکاء کی تعدا د انگلیوں پر تو گنی جا سکتی تھی لیکن معاشرے میں قد کاٹھ کے لحاظ سے سبھی بڑے لوگ تھے جنہوں نے اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں بڑا نام کمایا تھا یہ دراصل ’’دراویش مجید نظامی جسے عرف عام میں ان کے دوستوں شیدائیوں کی محفل کہا جا سکتا ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے باسیوں کے اڑھائی ماہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کی نذر ہو چکے تھے۔ شہر اقتدار دھرنے والوں کا تختہ مشق بنا ہوا تھا لہًذا مجید نظامی کی یاد میں کوئی بڑا ریفرنس منعقد نہ ہو سکا۔ ظفر بختاوری اور ٹکا خان ثانی تقریب کے انعقاد کے لئے صلاح مشورے سے آگے نکل نہ سکے تھے کہ نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر و عسکری امور کے معروف تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اعوان نے اسلام آباد کلب میں مجید نظامی کے دوستوں کی محفل سجا دی۔ چونکہ ان کا پیشہ بھی سپہ گری ہے لہٰذا ان کی دعوت پر ریٹائرڈ جرنیلوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، سیاستدانوں میں نمایاں شخصیت راجہ محمد ظفرالحق کی تھی جن کا مجید نظامی کے نظریاتی دوستوں میں شمار ہوتا تھا جب کبھی پاکستان پر کوئی افتاد پڑتی یا کوئی طاقت پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرتی تو راجہ محمد ظفر الحق مجید نظامی کے ہم آواز بن کر ان قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے چنانچہ کوئی محفل مجید نظامی کی یاد میں منعقد ہو تو وہ فوجی ڈکٹیٹروں سے ان کے ہونے والے مکالموں کے ذکر کئے بغیر نامکمل ہوتی ہے۔ جب کسی محفل میں مجید نظامی کی نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط صحافت کے شاندار دور کا ذکر آتا ہے تو وہ ان کی’’مارشل لائی حکومتوں‘‘ میں جرأت مندانہ گفتگو اور کردار کے تذکرہ سے مزید جاندار بن جاتی ہے۔ تقریب میں بیشتر دانشوروں نے جمہوری حکومتوں پر شب خون مارنے والے طالع آزمائوں کے خلاف مجید نظامی کے کردار کا کچھ اس انداز میں بیان کیا کہ مجید نظامی اور فوج دو الگ الگ قوتیں نظر آنے لگیں میں نے اس صورتحال میں ریٹائرڈ جرنیلوںکو پہلو بدلتے دیکھا انہوں نے محسوس کیا کہ تعزیتی ریفرنس کو’’ مجید نظامی بمقابلہ فوج‘‘ پیش کیا جا رہا ہے جس کا بعد ازاں ریاستوں و سرحدی امور کے وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ جو خود جنرل (ر) پرویز مشرف کی مارشل لائی حکومت کا حصہ رہے نے اپنے خطاب میں اپنے قبیلہ کے لوگوں کا بھرپور انداز میں دفاع کیا اور کہا کہ مارشل لاء لگانے کے لئے فوج میں ریفرنڈم نہیں کروایا جاتا چند لوگ مارشل لاء لگاتے ہیں اور وہی اس سے مستفید بھی ہوتے ہیں لہٰذا مارشل لاء لگانے کا فیصلہ پوری فوج کا نہیں ہوتا۔ تقریب میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والی شخصیت ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی موجود تھے۔ جہاں پاکستان کو اٹیمی قوت بنوانے میں مجید نظامی کے تاریخی کردارکا ذکر آتا ہے وہاں تقریب میں رونق افروز ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے ساتھ ایٹم بم کے اہم جزو ’’افزودہ یورینیم‘‘ کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اگرچہ مجید نظامی کا دوسرا نام ’’تحریک تحفظ نظریہ پاکستان ‘‘ تھا لیکن مجید نظامی کی شخصیت نظریہ پاکستا ن ، تحریک آزادی کشمیر، نیوکلیر پروگرام اور پاکستانیت کے اجزائے ترکیبی سے بنتی تھی اگر ان میں سے کوئی جزو کم ہو جائے تو اسے مجید نظامی نہیں کہا جا سکتا۔ مجید نظامی فوج کے پشت بان تھے لیکن فوج کے اقتدار پر قبضہ کی ہمیشہ مخالفت کی جب کبھی کسی طالع آزمانے جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو وہ فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے شمشیر برہنہ بن کر کھڑے ہو گئے اور اس کی سمت درست کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ تقریب میں خاص طور پر اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ جب مجید نظامی کو صدارت طشتری میں پیش کی گئی تو انہوں نے اس پر نوائے وقت کی ادارت کو ترجیح دی۔ تعزیتی ریفرنس میں جہاں مجید نظامی کی ملی خدمات کا اعتراف کیا گیا وہاں اس بات کا برملا اعتراف کیا گیا کہ محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے ان کی جانشین ہونے کا حق ادا کیا ہے اور اپنے عظیم باپ کی متعین کردہ سمت پر نوائے وقت کو چلا رہی ہیں۔ تقریب میں مجید نظامی کے گہرے دوست جسٹس (ر) آفتاب فرخ، ممتاز کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اور شاہد رشید نے لاہور سے خاص طور شرکت کی۔ جسٹس (ر) آفتاب فرخ کا شمار مجید نظامی کی محفل کے اہم ارکان میں ہوتا ہے مجید نظامی اپنے اہم فیصلوں میں ان کو اعتماد میں لیتے تھے۔ جسٹس (ر) آفتاب فرخ نے اپنی تقریر میں مجید نظامی کی شخصیت کے پوشیدہ پہلوئوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے یہی وجہ ہے وہ کسی جابر حکمران کے سامنے جھکے اور نہ ہی کسی حکمران کو انہیں خریدنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ متحدہ مسلم لیگ کا قیام ان کی زندگی کا حسین خواب تھا۔ انہوں نے ایام جلاوطنی میں میاں نواز شریف کا نام لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیا لیکن ’’وزیراعظم محمد نواز شریف‘‘ کی پالیسیوں کے ہمیشہ ناقد رہے وہ مضبوط فوج ، نیوکلیئر پروگرام، کالا باغ ڈیم کی تعمیر اورکشمیر کی آزادی کے حامی، حکمران کو ہمیشہ اپنا دوست سمجھتے تھے لیکن بھارت کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والا حکمران کبھی ان کا دوست نہیں بن سکا۔ نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے زیر اہتمام روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزتی ریفرنس کی صدارت چیئرمین پاکستان مسلم لیگ (ن) و سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کی جبکہ ریاستوں و سرحدی امور کے وزیر لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ، جسٹس (ر) آفتاب فرخ، سابق سینیٹر طارق عظیم، لیفٹیننٹ جنرل ( ر) عبدالقیوم اعوان ، ایم پی اے مہوش سلطانہ، سابق صدر آزاد ریاست سردار محمد انور، معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند، سنیئرکالم نگار ڈاکٹر اجمل خان نیازی ، سردار خان نیازی، زاہد ملک ، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری شاہد رشید، ظفر بختاوری اور دیگر شخصیات نے مجید نظامی کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے خدمات پر زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ممتاز نعت خوان عبدالرزاق جامی نے نعت رسول مقبولؐ کے بعد منظوم خراج عقیدت پیش کیا جب کہ صبا اسلم اور ملک فدا نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دئیے۔ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق کا شمار ملک کے سینئر مسلم لیگیوں میں ہوتا ہے جو نصف صدی سے زائد عرصہ مسلم لیگ سے وابستہ ہیں اور نظریہ پاکستان کی حفاطت کے لئے اگلی صفوں میں مورچہ زن ہیں۔ ان کے اور مجید نظامی کے درمیان قدر مشترک نظریہ پاکستان ہی تھی انہوں نے کہا کہ یہ ’’دراویش نظامی کی محفل‘‘ ہے ان کے نظریات کے فروغ اور آنے والی نسلوں کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانے کے لئے جہاں دیگر فورم کام کر رہے ہیں وہاں دراویش مجید نظامی قائم کرنے کی ضرورت ہے اس مجلس کو مستقل حیثیت دے کر اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ نوائے وقت کی اشاعت میں بڑے مشکل مراحل آئے لیکن مجید نظامی نے اپنے اصولی مؤقف پر کبھی بھی کمپرومائز نہیں کیا مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا نوائے وقت کی پالیسی کی اساس ہے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ مجید نظامی نظریہ پاکستان کے محافظ تھے مجید نظامی ہرقسم کی آمریت کے خلاف تھے سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سردار محمد انور نے کہا کہ مجید نظامی کا اوڑھنا بچھونا کشمیر تھا جب تک کشمیر یوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں مل جاتا اور بھارت آبی جارحیت ختم نہیں کردیتا وہ اس وقت تک بھارت سے دوستی کرنے کے حق میں نہ تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اعوان نے کہا کہ مجید نظامی اعلیٰ اقدار کے مالک تھے حب الوطنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری شاہد رشید نے کہا کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے قیام کا مقصد ہی نظریہ پاکستان کی ترویج اور نئی نسل کو اس سے روشنا س کرانا ہے معروف کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے مخصوص انداز میں مجید نظامی کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ مجید نظامی نظریاتی صحافت کے آخری چراغ تھے اور اب یہ چراغ محترمہ رمیزہ مجید نظامی لے کر آگے بڑھ رہی ہیں نظامی مرحوم مردمومن ، مرد مجاہد اور مرد پاکستان تھے وہ کوہسار صفت انسان تھے جن کا حوصلہ پہاڑ کی مانند تھا۔ انہوں نے کہا جب ملکی حالات کی وجہ سے دل اداس ہو تا تو ہم ان کی محفل میں جا بیٹھتے ان کی محفل میں بیٹھنے والے کا قد کاٹھ ہی بڑھ جاتا۔ روزنامہ پاکستان آبزرور کے چیف ایڈیٹر زاہد ملک نے کہا کہ ہم مجیدنظامی کے مشن کو جاری رکھیں گے مجید نظامی ایک سوچ و فکر کا نام ہے روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر سردار خان نیازی نے کہا کہ مجید نظامی کمزور شخص کے ساتھی تھے انہوں نے ہمیشہ کمزور طبقات کا ساتھ دیا۔ محفل دراویش نظامی برخواست ہوئی تو ہر شرک محفل کی زبان پہ لفظ تھا جناب نظامی کے ذکر کے لئے ایک نشست ناکافی ہے اس کے لئے تو سلسلہ وار نشستوں کے انعقاد ہو نا چاہیے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024