پیداوار میں اضافے کے لئے اصلاحات اراضی کے اقدامات؟
سید علی چودھری
ہماری زراعت میں دو بنیادی خامیاں ہیں۔ ایک زرعی مداخل یعنی ضروریات کے استعمال کی حد میں کمی اور دوسری مارکیٹنگ کے ناکافی انتظامات ہیں۔ ہمارے چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے کاشتکاروں کے پاس زرعی ادویات، کھاد وغیرہ خریدنے کے لیے مطلوبہ سرمایہ نہیں ہوتا اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں یہ امربنیادی طور پر حائل ہے۔ پیداوار کی فروخت کے لیے کاشتکاروں کے پاس کوئی یقینی منڈی بھی نہیں ہوتی۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے مرحلہ وار سروس کوآپریٹو کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ سروس کوآپریٹو کا اپنا بینک ہونا چاہیے ۔ اس بینک کا اپنا گودام اور کولڈ سٹوریج ہو۔ یہ بینک کاشتکاروں کی پیداوار حکومت کے مقرر کردہ نرخ پر خریدنے اور ہر کاشتکار کا علیحدہ حساب کھولے، علاقہ کے تمام کاشتکاروں کے لیے لازمی ہے کہ وہ مجوزہ کواپریٹو سروس میں شامل ہوں۔ کام کی ابتدا کے لئے چھوٹے قصبوں کے تمام تاجروں ، آڑھتیوں کو کمیشن کی بنیاد پر بینک کا نمائندہ مقرر کیا جا سکتا ہے اور ان کے تمام گودام استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ بعد ازاں مناسب مقامات پر بنک اپنی دکانیںقائم کرے جہاں زرعی ضرورت کی اہم اشیاء فروخت کی جائیں۔ ہر کاشتکار کا اپنا ایک اکائونٹ کارڈ ہو جس پر اس کا فوٹو چسپاں ہو اور جس کے ذریعہ وہ اپنی ضرورت کی اشیا خرید سکے۔ دوکاندار اکائونٹ کارڈ میں خریداری کا اندراج کرے اوربینک کو بھی اس سے مطلع کر دے جہاں قیمت خرید کاشتکار کے کھاتہ میں درج کر دی جائے۔ اگر کوئی کاشتکار کم قیمت کی پیداوار جمع کرائے اور زیادہ قیمت کی زرعی ضروریات خرید ے تو اسے Over draft کی سہولت دی جائے جس طرح کہ دوسرے کاروبار میں ہوتا ہے۔ سماوی آفات مثلا ً سیلاب، خشک سالی، ٹڈی دل، وغیرہ کے مواقع پر ان بینکو ں کے ذریعہ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے۔
اس کام کو شروع کرنے کے لیے بینک کو ٹھوس امداد کی ضرورت ہو گی۔ یہاں زرعی ترقیاتی بینک کا کردار شروع ہوتا ہے۔ جسے چاہیے کہ وہ افراد سے براہ راست لین دین کے بجائے بینکوں کو قرضے فراہم کرے۔ زرعی ترقیاتی بینک کو پابند کیا جائے کہ وہ بیرونی امداد یا قرضوں کے معاہدات یا نقد زر مبادلہ کے ذریعہ زرعی ضروریات کی اشیا درآمد کر ے اوربینکوں کو فراہم کر دے۔ زرعی ترقیاتی بینک کو اس امر کا بھی پابند کیا جائے کہ وہ زرعی ضروریات کی در آمد شدہ اشیابینک کے مراکز تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا بھی خود بندوبست کرے۔
نجی شعبہ کا کردار
اجتماعی قومی جدوجہد کے لیے نجی شعبہ کی شمولیت لازمی ہے۔ شہریوں کی تخلیقی قوت اور ہنر مندی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مساوی انصاف حاصل کرنا اور عوامی مرکزیت کے پروگرام نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان وسائل سے استفادہ کرنا ہوگاجوطاقتورنجی شعبہ فراہم کرتا ہے۔
رابطہ
زرعی ترقی کے لیے ہر سطح پر ہمہ جہت رابطہ کی ضرورت ہے۔ مقامی، درمیانہ اور قومی سطح پر مناسب اداروں کو مخصوص ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ ان کے اختیارات اور وسائل کا تعین کیا جائے اور ان اداروں، حکومت کے مختلف محکموں، نجی اور عوامی تنظیموں(مثلاً کاشتکاروں کی انجمنوں) کے مابین قریبی رابطہ قائم کیا جائے۔ مقامی عوامی تنظیم کی ترقی، اس تنظیم سے لیڈروں کا انتخاب اور ان کی تربیت ضروری امور ہیں تاکہ افسر شاہی کی بے اعتنائی اور مستقل فوائد حاصل کرنے والوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اختتامی رائے
حقیقی صورت حال اور خیالات جو اس مختصر تحریر میں پیش کئے گئے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ میں بڑے زمینداروں کی وکالت کر رہا ہوں یا میں حد ملکیت میں مزید تخفیف کے نظریہ کا مخالف ہوں۔
میں خود بھی 7 افراد پر مشتمل کنبہ کا درمیانہ زمیندار ہوں اور40ایکڑ اراضی کا مالک ہوں۔ میرے پیش نظر صرف زرعی پیداوار اور ہمارے چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے زمینداروں کی خوشحالی ہے۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر وزیر اعظم بھٹو کی اصلاحات اراضی کو صحیح طور پر آزمایا جائے اور انہیں پوری طرح نافذ کیا جائے تو یقینا زرعی پیداوار میں اضا فہ ہو گا اور اس کے نتیجہ میں ہماری کاشتکار برادری کو خوشحالی نصیب ہو گی۔