سردار عبدالخالق وصی
قیامِ پاکستان کے وقت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے خارجہ پالیسی کی بنیاد امن، خودمختاری، برابری اور تمام اقوام سے دوستانہ تعلقات پر رکھی۔ پاکستان کی اس اصولی اور پر امن پالیسی کے مقابلے میں بھارت نے ابتدا ہی سے جارحیت، عدم برداشت اور اکھنڈ بھارت پر مبنی رویہ اپنایا۔ 1965 میں پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی، 1971 میں اسے دو لخت کیا گیا، اور مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ، بھارتی آئین اور کشمیری عوام سے کیے گئے استصوابِ رائے کے وعدوں کے برعکس، غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا گیا اور بالآخر بھارت نے قضیہ کشمیر کو ختم کرنے کے لئے 5 اگست 2019 کے اقدامات کئے لیکن مسئلہ کشمیر اس وقت تک ختم نہیں ھوسکتا جب تک کشمیریوں کو اپنی آزادانہ رائے سے حق خود اردیت کا موقع نہیں ملتا۔
ان اقدامات نے پاکستان کو اپنی بقا اور سلامتی کے لیے دفاعی اقدامات میں توسیع کرنے پر مجبور کیا۔
یہی ادراک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا محرک بنا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس قومی عزم کو الفاظ دیے: "ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے"۔ جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان نے اس پالیسی کو ریاستی تسلسل سے جاری رکھا، اور بالآخر 1998 میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو چھ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا دیا۔ جس سے اب پاکستان الحمدللہ ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل ھو گیا اس پر پاکستان کے مدبر راھنما محمد نواز شریف کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے کم ھے یہی قائد نواز شریف کا وہ انقلاب آفریں فیصلہ ھے جس نے پاکستان کو آج تک بھارتی مذموم عزائم کی تکمیل میں گلے کی ھڈی بنایا ھوا ھے۔ یوں پاکستان نے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ امن کا خواہاں ہے، کمزوری کا نہیں۔
حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے ایک بار پھر کشیدگی کو ہوا دی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزیاں، اور بالا?خر پہلگام کے اندوہناک واقعے کو پاکستان کے سر تھوپنے کی سازش نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ بھارت نے ایک بار پھر روایتی فالس فلیگ آپریشن کا سہارا لیتے ہوئے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ ان حالات میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے جس تدبر، حکمت اور فعال سفارتی کردار کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ قابلِ رشک بھی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر، او آئی سی اجلاس میں ان کی سرگرم شرکت، اور عالمی میڈیا پر ان کے مؤثر بیانات نے پاکستان کے موقف کو ایک نئی توانائی عطا کی۔ انہوں نے بھرپور دلائل کے ساتھ عالمی برادری کو باور کرایا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا وکیل ہے اور بھارت کے اکھنڈ بھارت کے مذموم عزائم کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا۔ بی بی سی، سی این این، الجزیرہ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ان کے انٹرویوز میں جس انداز کی سفارتی شائستگی اور استدلال کی جھلک نظر آئی، اس نے پاکستان کا تشخص نکھارا۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے صرف عالمی فورمز پر ہی نہیں بلکہ دو طرفہ ملاقاتوں کے ذریعے بھی پاکستان کا موقف مدلل انداز میں پیش کیا۔ چین، سعودی عرب، ترکی، ایران، روس اور دیگر اہم ممالک کے وزرائے خارجہ سے ان کی ملاقاتیں اسی سفارتی مہم کا حصہ تھیں۔ ان رابطوں کے نتیجے میں دنیا بھارت کے بیانیے سے ہٹ کر پاکستان کی بات سننے پر مجبور ہوئی۔
پہلگام واقعے پر بھارت نے حسبِ روایت بغیر ثبوت الزامات عائد کیے، لیکن اس بار پاکستان نے ریاستی سطح پر ایک متفق، مدلل اور مؤثر ردعمل دیا۔ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈار ،وزیر دفاع خواجہ آصف، اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کھلے الفاظ میں کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا مخالف ہے اور اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اسے غیر جانبدار بین الاقوامی اداروں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پاکستان کے اس مؤقف کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔
پہلگام واقعے پر پاکستان کی مؤثر سفارتکاری کی کامیابی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کے سفارتی وفد کی محنت اور سینیٹر اسحاق ڈار کی متحرک قیادت کے باعث عالمی برادری نے بھارتی الزامات کو یکطرفہ قرار دیا اور پاکستان کے مؤقف کو اہمیت دی۔ پاکستانی سفارتکاری کی یہ جیت اتنی واضح تھی کہ بھارتی میڈیا تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ بھارت سلامتی کونسل میں تنہا رہ گیا اور اسے اپنے دعوؤں کے لیے عالمی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔
صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی تھی کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارت کے وزیر خارجہ سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا، تاکہ کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔ اس اہم پیش رفت کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، چینی وزیر خارجہ، سعودی ولی عہد، ترک صدر،قطر کے وزیراعظم اور یورپی یونین کے نمائندوں نے بھی دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مسئلے کے حل کے لیے پر امن ذرائع اپنانے کی اپیل کی۔
دوسری جانب بھارت کے اندر سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی افواج کو "فری ہینڈ" دینے کا عندیہ دیا ہے، جس سے جنگی ماحول کی فضا گہری ہو گئی۔ اس کے جواب میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے انتہائی سنجیدہ، لیکن دو ٹوک مؤقف اختیار کیا کہ "ہم جنگ کی ابتدا نہیں کریں گے، ہم پر امن قوم ہیں۔ ہم نے دہائیوں تک دہشت گردی کا سامنا کیا ہے، اس کا بوجھ اٹھایا ہے، ہم جانتے ہیں کہ جنگ کی قیمت کیا ہوتی ہے، لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پھر اس کا نتیجہ خیز انجام ہماری مجبوری ہو گا۔"
اس تمام منظرنامے میں وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کی قیادت نے سفارت کاری کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے۔ ان کی حکمت عملی، مؤقف کی مؤثر تشکیل، عالمی میڈیا کی شمولیت اور بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوششیں نہ صرف قابل ستائش ہیں بلکہ آئندہ کی سفارتی سمت کے لیے ایک روشن مثال بھی بن چکی ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان، قائداعظم محمد علی جناح کے وضع کردہ اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اب نہ صرف ایک دفاعی قوت ہے بلکہ سفارتی محاذ پر بھی قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر یہ تسلسل جاری رہا، تو پاکستان کا وقار، کشمیریوں کا مقدمہ، اور جنوبی ایشیا کا امن ایک مضبوط اور دیرپا بنیاد پر استوار ہو سکتا ہے۔ اور
برصغیر جنوبی ایشیا میں "اکھنڈ بھارت"
کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔