بلوچستان ایک تاریخی پس منظر کا حامل ہے۔ معدنیات کی دولت سے مالا مال یہ پاکستان کا ایسا صوبہ ہے جو قدرتی گیس، سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر رکھتا ہے لیکن پسماندگی دہائیوں سے جس کا مقدر ہے۔ سیاسی لیڈرشپ کی طرف سے اس کی محرومیاں دور کرنے کی ہمیشہ بات کی جاتی ہے لیکن گزشتہ 75سال میں کوئی بھی اس صوبہ کی پسماندگی اور محرومیاں دور نہیں کر سکا۔ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان، مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947ء تک موجودہ بلوچستان پانچ حصوں میں تقسیم تھا۔ چار حصوں میں شاہی ریاستیں تھیں جو قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر مشتمل تھیں۔ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کا رقبہ 347190مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا 43.6فیصد ہے۔
پورے بلوچستان کی آبادی ضلع لاہور سے بھی کم ہے۔ قدرت نے بلوچستان کو معدنی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے بلوچستان اہم ترین صوبہ ہے مگر افسوس یو این او کے ایک حالیہ سروے کے مطابق بلوچستان اس وقت دنیا کے سب سے پسماندہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ بلوچوں میں تعلیم کا ہر درجے کا شوق اور انتہا کی علمی وسیاسی شعور پایا جاتا ہے اسی لیے جب بھی وہاں شورش برپاہوتی ہے تو دب جاتی ہے۔ کچھ علیحدگی پسند تنظیمیں بھی ہیں جو غیر ملکی فنڈنگ پر مقامی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہتی ہیں۔ چونکہ بلوچستان کا پورا علاقہ ہی طویل ترین پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہ پہاڑ انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں کی محفوط پناہ گاہیں ہیں۔ ہماری مسلح افواج انٹیلی جنس اطلاعات پر یہاں انتہا پسندوں اور قانون شکن عناصر کے خلاف آپریشن کرتی رہتی ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں لیکن بلوچستان میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
چین کے اشتراک سے تکمیل پانے والا گوادر منصوبہ بلوچستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ایشیائی ملکوں کے مابین آسان اور سستے ترین تجارتی روابط قائم ہو سکتے ہیں اور پاکستان کو اس مد میں ناصرف کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہو سکتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے بھی وسیع مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ لیکن کچھ غیر ملکی طاقتیں اس حق میں نہیں کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو، تجارتی حوالے سے مضبوط اور خوشحال ہو۔ اسی لیے کچھ مقامی قبائل کی اعانت سے وہ یہاں اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ ان ملک دشمن اور شرپسند عناصر کی کوشش ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و امان کے مسائل پیدا کر کے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کریں۔ یہ بات ملک دشمنوں کے حق میں جاتی ہے کہ پاکستان عدمِ استحکام کا شکار رہے تاکہ یہاں ترقی اور خوشحالی نہ آ سکے۔ یہ عناصر کافی حد تک اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب رہے ہیں۔ بلوچستان میں جو علیحدگی پسند گروہ یا تنظیمیں سرگرم عمل ہیں ان کی منشاء ہے کہ وہ بلوچستان میں عدمِ استحکام پیدا کر کے پاکستان کے اربوں ڈالر کے معدنی ذخائر پر نا صرف قبضہ کر سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو ہر طرح سے کمزور کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔
دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کی نظر یں بلوچستان کے معدنی وسائل پر جمی ہوئی ہیں۔ تیل کے علاوہ سونے، تانبے کے ذخائر بھی بڑی تعداد میں دریافت ہوئے ہیں۔ ان معدنی وسائل کی دنیا میں مارکیٹنگ کی جائے تو ناصرف ہمارے سارے بیرونی قرضے ادا ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان خوشحالی کی راہ پر اپنا سفر شروع کر سکتا ہے۔ بلوچستان کے لوگ جن محرومیوں کا شکار ہیں ان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن کر ہم سے جدا ہو جانا انھی محرومیوں کا نتیجہ تھا جو آج بلوچستان کے لوگوں کو درپیش ہیں۔ہر دور میں حکمرانوں نے بلوچستان کی محرومیوں کی بات کی۔ لیکن عملی طور پر وہ بلوچستان کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ بلوچستان میں سوئی کے مقام سے نکلنے والی قدرتی گیس سے پورا ملک فیض یاب ہوتا ہے لیکن بلوچستان خود گیس کی کمی کا شکار ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں تو گیس آئی ہی نہیں۔ تعلیمی اداروں کی بھی بے حد کمی ہے۔ نوکریو ں میں بھی وفاق کی سطح پر بلوچستان کو میرٹ پر نہیں رکھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ بلوچی قبائل بغاوت پر اترے ہوئے ہیں جنھیں بیرونی طاقتیں اپنی منشاء کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انھیں مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے خطیر فنڈنگ بھی کی جاتی ہے جو اربوں ڈالر میں ہوتی ہے۔ بلوچستان سے بھاگے ہوئے کچھ باغی سردار لندن میں بیٹھے ’را‘ کی مدد سے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں میں تخریب کاری کے تانے بانے بنتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا بلوچستان سے پکڑے جانا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مقامی علیحدگی پسند اور انتہا پسند آرگنائزیشز کے ’را‘ سے گہرے رابطے ہیں تاکہ بلوچستان اور پاکستان کے امن کو خراب کیا جا سکے۔
بلوچستان، پاکستان کا بہت ہی اہم صوبہ ہے۔ بہت سی کوششیں ہوئیں کہ بلوچ رہنماؤں کو ایک میز پر بٹھا کر بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے تاکہ اس صوبے کی محرومیاں دور ہو سکیں اور بلوچستان بھی دیگر صوبوں کی طرح ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ دہائیوں پہلے جیسے بنگالیوں میں ایک تاثر قائم تھا کہ اسلام آباد ہمیں لوٹ کر کھا گیا۔ اسلام آباد کو بنانے میں سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی ساری کمائی لگ گئی۔ اسلام آباد خوشحال ہو گیا جبکہ بنگلہ دیش کوڑی کوڑی کا محتاج۔ آج بلوچستان میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر ابھر رہا ہے کہ ریاست کے طاقتور طبقے بلوچستان کے وسائل کو استعمال کر کے خود عیش کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ وہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں۔ ہم نے بلوچستان کے ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی محرومیاں دور نہ کیں تو اس کے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024