منگل ،یکم شوال 1443ھ‘ 3 مئی 2022ء

وزیراعلیٰ نے پروٹوکول کی بجائے اشارے پر گاڑی روک دی خدا کرے کہ حمزہ شہباز کا یہ عوامی اور مثالی رنگ یونہی سدا برقرار رہے۔ وہ ایک اچھے وزیراعلیٰ ثابت ہوں جو قانون کا خود بھی احترام کریں اور دوسروں کو بھی کرنے کا درس دیں۔ وزیراعلیٰ، گورنر یا عام وزیر جب باہر نکلتے ہیں تو ان کے ارد گرد پروٹوکول کے نام بے شمار گاڑیاں حفاظتی سکواڈ کے اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ صرف اس بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی اور ان کے لیے اشاروں پر ٹریفک روک دی جاتی ہے تاکہ عالم پناہ کی سواری اطمینان سے گزرے، انہیں اشاروں پر رکنا نہ پڑے جو ان کے مزاج نازک پر گراں گزرتا ہے۔ سچ کہیں تو اس وقت یوں لگ رہا ہوتا ہے جیسے کوئی خطرناک مجرم پولیس کے کڑے پہرے میں گزر رہا اور جلد از جلد جیل پہنچانے کے انتظامات ہو رہے ہیں۔ عوام اس دوران سخت گرمی ہو یا سردی یا برسات دیر تک بند سڑکوں پر خجل خوار ہوتے ہیں اور حکمرانوں کو کوستے ہیں۔ صرف یہی نہیں، ٹریفک کے اس اژدہام میں کئی ایمبولینسیں بھی پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ کئی مریض دم توڑ دیتے ہیں مگر حکمرانوں کو اپنا پروٹوکول عوام کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتا۔ اگر حمزہ شہباز اپنی کابینہ کے وزراء کے لیے بھی یہی طریقہ کار اختیار کرنے کا حکم جاری کریں سب کو اشاروں پر رکنے اور ٹریفک قوانین کی مکمل پاسداری کا درس دیں تو کسی بڑے سے بڑے وزیر یا مشیر کی جرأت نہیں ہو گی کہ وہ اشارے توڑے یا اسکے لیے ٹریفک بند ہو۔ اس طرح لوگوں کی نظروں میں حکمرانوں کی اور حکومت کی عزت بڑے گی۔
٭٭٭٭٭
پابندیاں نہیں بھارت کو روس سے ترک تعلق کی ترغیب دی جائے، امریکی وزیر خارجہ
واہ یہ خوب علاج نکالا ہے امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کے مرض کا۔ ایک بگڑے ہوئے انسان یا نافرمان اولاد کو جب سبق سکھانا ہوتا ہے تو اسے پہلے پیار سے سمجھایا جاتا ہے۔ جب وہ نہ سمجھے تو پیار کی زبان ترک کر کے اسے مار کی زبان سے راہِ راست پر لایا جاتا ہے مگر امریکی وزیر خارجہ کیا بے تکی بات کر رہے ہیں کہ بھارت کے روس کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اس لیے اسے روس سے تعلقات میں کمی لانے کے لیے دباؤ ڈالنے اور سخت رویہ اختیار کرنے کی پابندیاں لگانے کی بجائے صرف ترغیب دی جائے تاکہ اس کے مزاج نازک پر گراں نہ گزرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل امریکہ اور بھارت میں گہری یاری ہے۔ اس لیے امریکہ بھارت پر ہاتھ ہلکا رکھنا چاہتا ہے۔ اب کیا کریں امریکیوں کی یاداشت بہت کمزور ہے۔ انہیں اپنی اس کمزوری کا علاج کروانا چاہیے۔ وہ بھول رہے ہیں کہ یہی بھارت خود کو روس کا قدرتی اور روایتی حلیف کہہ کر سرد جنگ کے زمانے میں اربوں روبل کا اسلحہ اور مالی امداد حاصل کرتا رہا ہے۔ جب روس کی کمر ٹوٹی تو امریکی گود میں جا بیٹھا۔ امریکہ کو تو شاید یہ بھی بھول گیا ہے کہ پاکستان اس کا اہم سٹریٹجک پارٹنر تھا۔ اسے فرنٹ لائن اتحادی کا درجہ بھی حاصل تھا مگر اب اسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی طرف توجہ زیادہ دی جا رہی ہے۔ حقیقت وہ ہے جو ڈیموکریٹس بیان کر رہے ہیں کہ دہلی پر سخت دباؤ ڈالیں گے اور اس پر پابندیاں لگیں گی تو بات بنے گی کیونکہ یہاں سیدھی انگلیوں سے گھی نکلنے والا نہیں ۔
٭٭٭٭٭٭
میری جان کو خطرہ ہے، شیخ رشید نے 7 نام دے دیے
اصل میں تو خطرہ ان کی جان کو نہیں ان کی وگ کو ہے جس کے اتارنے والے کیلئے حنیف عباسی نے 50 ہزار روپے انعام رکھا ہے۔ اب یہ سب جانتے ہیں کہ شیخ رشید کی وضع قطع سے اگر یہ وگ منہا کر لی جائے تو باقی کیا بچے گا۔ ان کی شخصیت کا رعب داب تو بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں کئی ایسے سیاستدان موجود ہیں جن کی وگ پر اصل بالوں کا گماں ہوتا ہے مگر کیا کریں اس عمر رسیدگی کا جو چہرے مہرے سے لٹکتی جلد سے، ہاتھوں اور ماتھے پر پڑی جھریوں سے ڈھلی ہوئی عمر اور گزرے ہوئے عہد شباب کا سارا پول کھول دیتی ہے۔ اب کیا سب کو معلوم نہیں کہ شیخ جی کوئی کھلنڈرے نوجوان نہیں، ساٹھ ستر سال کے بابے ہیں مگر کالے بالوں والی وگ سے عمر چھپا رہے ہیں جو چھپتی بھی نہیں۔ اب شیخ جی بھی اگر حنیف عباسی کو سوئی چبھونے والے کے لیے کوئی ایسا ہی انعام مقرر کریں تو مقابلہ برابر ہو سکتا ہے۔
رہی بات شیخ جی کی جان کو خطرے کی تو جن 7 افراد کے نام انہوں نے گنوائے ہیں اس کا جواب وہ لوگ ہی بہتر دے سکتے ہیں۔ ہاں اگر شیخ جی کو کچھ ہوا تو پھر ان کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے ایکشن ضرور لینا پڑے گا۔ یادش بخیر بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل کے حوالے سے کچھ نیک نام نامزد کیے تھے کہ مجھے ان سے خطرہ ہے مگر بے نظیر کی شہادت کے بعد کیا کسی کے خلاف کوئی ایکشن ہوا۔ نام تو سب کو یاد ہوں گے۔ رہی بات جیل سسرال ہے اور ہتھکڑی زیور تو یہ ہر سیاستدان کا مقولہ ہوتا ہے۔ اکثر ان دونوں کا مزہ بھی لیتے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
1945ء میں چرائے کیک کے بدلے میں امریکی فوج نے اطالوی خاتون کو نیا کیک پیش کیا
واقعہ یہ ہے کہ 1945 ء کی دوسری جنگ عظیم میں امریکی فوجیوں نے اٹلی کے دیہات سان پیڑو میں 13 سالہ لڑکی میری مایون کے گھر سے اس کا کیک چرا کر کھا لیا تھا۔ اس جنگ میں اٹلی بھی امریکی اتحادیوں میں شامل تھا۔ اب ظاہر بات ہے جب انہوں نے یہ کیک چرا کھایا ہو گا تو اس وقت اس لڑکی کے دل پہ کیا گزری ہو گی۔جنگ کے مشکل وقت میں کیک بھی ایک بڑی نعمت ہی ہوتا ہے۔ وہ روئی بھی ہو گی مگر وہ دکھ کے آنسو تھے۔ آج جب امریکی فوج کی طرف سے 77 سال بعد 90 سالہ میری مایون کو اس چرائے گئے کیک کے بدلے میں ایک نیا فریش کیک پیش کیا گیا وہ بھی فوجی اہتمام کے ساتھ تو میری مایون ایک مرتبہ پھر رو پڑی مگر اب یہ خوشی کے آنسو تھے۔ گزشتہ روز اس کی سالگرہ پر اسے یہ کیک دیا گیا۔ یہ خوبصورت واقعہ قوموں کے رویوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات ہی اعلیٰ اقدار کی بنیاد بنتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی یہ ایک سبق ہے کہ اگر ہم بھی جان بوجھ کر یا انجانے میں کی گئی اپنی کی غلطیوں کی اصلاح کریں، جو دل توڑا ہے اسے جوڑنے کی کوشش کریں، اپنی چھوٹی موٹی زیادتیوں کا ازالہ کریں تو ہمارے ہاتھوں دکھی ہو کر رونے والی بہت سے آنکھوں میںبھی خوشی کے آنسو بھی آ سکتے ہیں۔ آج عید ہے تو کیوں نہ شروعات آج سے کی جائے روٹھوں کو منایا جائے گلے لگایا جائے کہ
رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے