انتخابی اصلاحات اور سیاسی جماعتوں کا رویہ
وزیراعظم عمران خان کی انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی پیشکش کو مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے نہ صرف مسترد کردیا ہے بلکہ ان دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے شدید ردعمل کا بھی اظہار کیا ہے تاہم پیپلزپارٹی نے مشاورت کیلئے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مشاورت کا ماحول تو بنایا جائے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انتخابی نتائج ہمیشہ ہی متنازعہ رہے ہیں، جیتے والی پارٹی نتائج کو شفاف مانتی ہے جبکہ ہارنے والی دھاندلی اور ’’دھاندلے‘‘ جیسے الزامات لگاتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے انتخابی اصلاحات کا بیڑہ اٹھانے کا اعلان کیا جارہا ہے تو یقیناً خوش آئند ہے اس پر دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی توجہ دینی چاہئے۔ آراء و تجاویز سے ہی مشاورت میں بہتری آتی ہے اگر کہیں کسی سقم، نقص یا فنی خرابی کا خدشہ ہو تو اس کو مشاورت سے دور کیا جاسکتا ہے، انتخابی اصلاحات میں اہم ترین کردار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف نے اگرچہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز تو مسترد کردی ہے لیکن دیگر پہلوئوں پر بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ گفت و شنید ہوگی تو خیر کے کئی پہلو نکل آئیں گے، حکمران پارٹی (تحریک انصاف) سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا مطمح نظر اور سیاسی ایجنڈا انتخابی اصلاحات ہی ہونا چاہئے، اگر فریقین ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے کو فی الحال ایک طرف رکھ کر دیگر پہلوئوں پر سیاسی مشاورت کا عمل شروع کرنا چاہئے ۔