غیر جانبدار ٹیکنالوجی
پاکستان میں انتخابی عمل کو ہمیشہ سے مشکوک سمجھا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چند ووٹ لینے والا بھی اپنی ہار تسلیم نہیں کرتا اور جمہوری حسن کے مطابق اپنی ہار کو کھلے دل اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شکست کی بجائے دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیتا ہے انتخابی عمل کی ایسی ایسی خرابیاں تراشی جاتی ہیں اور اتنے وثوق کے ساتھ الزام لگائے جاتے ہیں کہ عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ الیکشن کہیں نہ کہیں مینج ہوتے ہیں اب یہ تاثر بہت ہی گہرا ہو گیا ہے عوام بھی یہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ سازشی دماغ ہر الیکشن میں دھاندلی کا نیاطریقہ کار ایجاد کر لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا الیکٹورل سسٹم سے اعتماد اٹھ گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ووٹ سے فیصلے نہیں ہوتے بلکہ فیصلے باریک کام سے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں ٹرن اوور بہت کم ہو گیا ہے ابھی تو عمران خان نے لوگوں کو ایک امید دلائی تھی کہ آپ کے ووٹ سے تبدیلی آئے گی آپ باہر نکلیں اور انھوں نے انتخابی سسٹم سے لاتعلق ہونے والوں اور نوجوان نسل کا اعتماد بحال کر کے انھیں ووٹ کی طرف راغب کیا تھا اسی وجہ سے 2013 اور 2018 کے الیکشن میں ٹرن اوور کچھ بہتر ہوا ورنہ زیادہ تر عوام ہمارے انتخابی عمل سے لاتعلق ہو چکے تھے ہم خود عینی شاہد ہیں جب دو اڑھائی سال بعد الیکشن ہوتے تھے تو ٹرن اوور 18 سے 22 فیصد تک آگیا تھا بلکہ ایک الیکشن کو قابل قبول بنانے کے لیے تو ٹرن اوور کو زیادہ شو کر کے عوام کے عدم اعتماد کو چھپایا گیا تھا پچھلے چند انتخابات خاص کر 2013 کے الیکشن کے نتائج کو تحریک انصاف اور 2018 کے الیکشن کے نتائج کو پی ڈی ایم نے تسلیم نہ کر کے اور اس پر احتجاجی تحریک چلا کر الیکشن کے عمل کو مکمل طور پر متنازعہ کر دیا ہے اوپر سے رہتی سہتی کسر ضمنی انتخابات نے پوری کر دی ہے جن پر حکومت سمیت اپوزیشن کی جماعتوں نے سوال اٹھائے یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو مشکوک بنا کر رکھ دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ الیکشن کمیشن صاف شفاف الیکشن کروانے کی استعداد نہیں رکھتا خاص کر ڈسکہ کے ضمنی الیکشن اور کراچی کے ضمنی الیکشن نے تو سارے سسٹم کو ننگا کر دیا ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کروانا پڑے اور کراچی کے نتائج کو بھی روک لیا گیا ہے وہاں دوبارہ گنتی یا دوبارہ الیکشن کی طرف جایا جائے گا خاص کر کراچی کے الیکشن میں انتہائی کم ٹرن اوور نے انتخابی عمل پر عوام کی بیزاری ظاہر کر دی ہے وزیراعظم سمیت تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کی خرابیوں کی نشاندہی کر چکی ہیں لیکن ان خرابیوں کو مل بیٹھ کر دور کرنے کی بجائے ہر کوئی اس سے اپنا الو سیدھا کرنے کے چکروں میں ہے پاکستان میں پہلی دفعہ کسی نے عوام کے فیصلے کو محفوظ اور با اعتماد بنانے کے لیے فول پروف سسٹم بنایا وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے بطور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی الیکٹرونک ووٹنگ مشین بنوائی چونکہ بطور مسلمان ہم جھوٹ بولنے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر دو نمبر کام کرنے کو عین عبادت سمجھتے ہیں اس لیے اب پاکستانی عملے پر اعتبار ناپید ہو چکا چنانچہ غیر جانبدار ٹیکنالوجی پر انحصار کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ مشینیں جھوٹ نہیں بولتیں اور نہ ہی ٹیکنالوجی جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے تاکہ وقت یہ کہ اسے آپریٹ کرنے والے کی نیت خراب نہ ہو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ایجاد پر فواد چوہدری کے کارنامے کو سراہا جاتا اور اپوزیشن مل بیٹھ کر الیکشن کمیشن کی تمام خرابیوں کا حل ڈھونڈتی لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن کی کچھ جماعتیں خاص کر مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ حکومت اگلے الیکشن میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا نیا حربہ استعمال کر رہی ہے اپوزیشن کو اپنے خدشات دور کرنے کے لیے اپنے ماہرین کو اس ووٹنگ مشین کا معائنہ کروانا چاہیے اور جہاں کہیں خدشات ہوں اس کا حل پیش کر کے اسے فول پروف بنانا چاہیے اس کے علاوہ انتخابی عمل کو ہر لحاظ سے صاف شفاف اور اس کی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے اقدامات تجویز کرنے چاہئیں لیکن پاکستان میں مشاورت کا رواج نہیں یہاں ہر معاملے میں کیڑے نکال کر مخالفت کی سیاست کے ذریعے آگے بڑھنے کا رواج ہے دنیا میں انتخابات کے بعد حکومت اور اپوزیشن تعاون کے ذریعے معاملات کو چلاتی ہیں یہاں ایک دوسرے کو ناکام بنانے کے جتن کیے جاتے ہیں اب تو وزیراعظم عمران خان نے بھی اپوزیشن کو دعوت دے دی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لیے مذاکرات کرے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی انتخابی اصلاحات پر بات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن مسلم لیگ ن میں مریم نواز کا سافٹ وئیر اس پر بات کرنا گناہ سمجھتا ہے البتہ میاں شہباز شریف جو کہ صیح معنوں میں پارلیمانی اپوزیشن لیڈر ہیں اور پارٹی کے قانونی صدر ہیں وہ چند دنوں میں اپنا نیا سافٹ وئیر ڈاون لوڈ کر کے کوئی پیش رفت کر سکتے ہیں ہم اپنے انتخابی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر پر قابو پا کر نتائج میں ردوبدل کے شکوک وشبہات دور کر سکتے ہیں اپوزیشن کو میں نہ مانوں کی رٹ چھوڑ کر اس معاملے پر بات چیت کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ مستقبل میں بہتری کی طرف بڑھا جاسکے انتخابی عمل میں عوام کا اعتماد بحال کیا جائے لوگوں کو فیصلہ سازی کی طرف لے کر آیا جا سکے۔