حکومت اب اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے یا اس دور سے گذر رہی ہے جہاں مہنگائی پر قابو پانا یا زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ اس وقت بائیس کروڑ لوگوں کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ حکومت کی پونے تین سال کی ناقص حکمت عملی اور غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ اس دوران حکومت نے کبھی اس اہم ترین مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی البتہ مہنگائی قابو کرنے کے نام پر میڈیا کو مواد ضرور فروہم کیا گیا، کبھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی متعلقہ وزارتوں پر برہمی، کبھی مہنگائی پر نوٹس تو کبھی ناجائز منافع خوروں اور مافیاز کے خلاف بیانات، اس مشق سے نہ تو مہنگائی رک سکی، نہ یہ جن قابو میں آ سکا نہ عام آدمی کے لیے کوئی آسانی پیدا ہوئی اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی نعروں پر عمل کر سکی۔ ہر گذرتا دن عوام کے لیے بھاری پڑتا رہا۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کا کچومر نکال دیا ہے۔ لوگوں کی ذہنی حالت خراب ہو گئی، لوگ نشے کے عادی بن رہے ہیں میں نے لاہور میں نہر کنارے اتنی بڑی تعداد میں نشئی کبھی نہیں دیکھے جتنے ان دنوں دیکھنے میں آ رہے ہیں آخر کوئی تو وجہ ہے کہ منفی سرگرمیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ عوام بھی شور مچا مچا کر تنگ آ گئے ہیں حقیقت یہ ہے لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ بددعا کا راستہ ہے یہ کام روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے خلاف ہوتا ہے۔ چونکہ کمزور انسان جب تھک ہار جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور یہی دعا کرتا ہے کہ یااللہ ان ظالم حکمرانوں سے نجات عطاء فرما اور پاکستان میں یہ کام کروڑوں لوگ ہر وقت کر رہے ہوتے ہیں۔
موجودہ حالات میں حکومت مہنگائی کیوں کم نہیں کر سکتی اس کی دو تین بنیادی وجوہات ہیں اگر ان وجوہات پر توجہ دی جائے تو سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ اس حوالے سے ہر میٹنگ یا بیان سیاسی گفتگو تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بجلی، پیٹرول، گیس سب کچھ مہنگا کر دیا ہے ان چیزوں کی قیمتوں میں کمی کے بغیر اشیائ خوردونوش کی قیمتوں میں استحکام یا کمی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ڈالرز میں ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی ڈالرز میں ہوتی ہے اور ڈالر کی خرید و فروخت ایک سو پچپن سے ایک سو ساٹھ میں ہو رہی ہے جب ڈالر کی قیمت نیچے نہ آئے روپے کی قدر میں بہتری نہ ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت مہنگائی پر کیسے قابو پا سکتی ہے۔ اس کے بعد بڑا مسئلہ متعلقہ وزارتوں کے غلط فیصلوں اور معاملات کو نہ سمجھنے کا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی کا کچھ پتہ نہیں چلتا کب کون سی چیز ایکسپورٹ کرنی ہے کب امپورٹ کرنی ہے اس حوالے سے پونے تین سال میں کبھی بہتر حکمت عملی نہیں بنائی جا سکی بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے پھر ہم مہنگائی پر کیسے قابو پائیں گے۔ اس لیے حکومت کے لیے بہتر ہے کہ سچ بولے کیونکہ اب عوام نے دلاسوں سے قائل نہیں ہونا انہیں قائل کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے چونکہ مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں رہا اب اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل لوگوں کے ذرائع آمدن اور قوت خرید کو بڑھانا ہے۔ کیا حکومت سمجھتی ہے کہ بیس ہزار ماہانہ میں کوئی شخص گذارہ کر سکتا ہے، کیا اتنے پیسوں میں کسی کے لیے اپنے بیوں بچوں کے لیے صرف کھانے پینے کا بندوبست کرنا ممکن ہے یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ان حالات میں بہتر روزگار کے ذرائع پیدا کیے جائیں کم سے کم اجرت چالیس ہزار ماہانہ مقرر کی جائے اور اس کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر کسی کو چالیس ہزار ماہانہ ملتے ہیں تو وہ کم از کم دو وقت کی روٹی کھا سکتا ہے۔ باقی سب باتیں ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ اس لیے مہنگائی پر میٹنگز کرنے اور بیانات جاری کرنے کے بجائے حکومت مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے عام آدمی کی قوت خرید کو بڑھائے۔
جہاں تک اس سارے مسئلے کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو انقلابی تبدیلیوں کے بغیر ایسے کام ممکن نہیں ہوتے اور انقلابی فیصلوں کا وقت گذر چکا ہے اب حکومت کے سیاسی فیصلوں کا وقت شروع ہو چکا ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی حکومت پہلے دو سال میں نئے منصوبے شروع کرتی ہے اور آئندہ ڈیڑھ دو برس کے دوران انہیں مکمل کرتی ہے اور پھر آخری سال انتخابی نعروں کے طور پر ان ترقیاتی منصوبوں کو استعمال کرتی ہے چونکہ موجودہ حکومت ان کاموں میں پہلے ہی بہت تاخیر کر چکی ہے ان کے پاس اس حوالے سے ماسوائے چند مخصوص علاقوں کے قابلِ ذکر مواد نہیں ہے لہٰذا اس وقت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کسی بھی انقلابی فیصلے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ حکومت نے سیاسی فیصلے شروع کر دیے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید سیاسی فیصلے کیے جائیں گے اور یہ سیاسی فیصلے آئندہ عام انتخابات کو سامنے رکھ کر کیے جائیں گے۔ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے سیاسی اور منتخب افراد کو ذمہ داریاں سونپی جائیں گی، کابینہ میں تبدیلیاں ہوں گی۔ ان تبدیلیوں میں عوامی مفادات کو نظر انداز کیا جائے گا اور جب عوامی مفاد کو ہی ترجیح نہھں دی جائے گی تو پھر عوامی مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ سو حقیقت یہی ہے کہ حکومت بہت وقت ضائع کر چکی ہے اب مہنگائی پر ملاقاتیں وقت اور سرمائے کا ضیاع ہیں اب صرف اور صرف آمدن کے ذرائع بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے اور اگر حکومت یہ بھی نہیں کرتی تو پھر انتخابات میں عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024