قارئین ، آج سے صرف 6ماہ پہلے کسی نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ دنیا اس سپیڈسے افراتفری ،نفسانفسی کا شکار بھی ہو سکتی ہے اوراتنی اچانک اور غیر متوقع وبا سے ساری دنیا متاثر ہوجائیگی اور اموات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگا اور بڑی کیا ،چھوٹی ،تمام قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا۔2لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں اور کل کا پتہ نہیں کیا ہو۔کھربوں ڈالر اس وبا کی نظر ہوچکے ہیں اور بڑی بڑی معیشتوں کا ،خصوصا یورپی ممالک بشمول امریکہ کے تمام اندازے اور شماریئے غلط ثابت کردئے ہیں،ہر ملک سمارٹ لاک ڈائون سے ٹوٹل لاک ڈائون پر مجبور ہے۔اس وباکا کوئی مجرد نسخہ کسی سپر سے سپر طاقت کے فی الحال بس میں نہیں۔گلوبل، ہوائی انڈسٹری کو سخت مالی نقصان ہو رہا ہے ۔ اسی طرح لاک ڈاون سے ،ہر ملک کو اموات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف پیکیج بھی دینے پڑ رہے ہیں ۔کیونکہ ہر ملک میں شہری گھروں میں مقید ہو کررہ گئے ہیں اور ہر حکومت اپنے شہریوں کی جان بچانے کے درپے ہے۔طرفہ تماشہ تو یہ،کے ابھی تک کرونا وائرس کا کوئی توڑ بھی نہیں نکل سکا۔کوئی کونین، کوئی بشمول صدر ٹرمپ ،ڈس انفیسٹنٹ، بلیچنگ پائوڈر تک اپنے تئیں ،علاج بتا رہا ہے۔تو کوئی، پلازما امیون تھیراپی کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ قارئین،کیسی عجیب صورتحال ہے جو اچانک ضعف کاباعث بن رہا ہے۔ غرض،ایک طرف معیشت کو بچانے کی جنگ ہو رہی ہے، تو دوسری طرف علاج کا کوئی سرا یا سراغ تک نہیں مل رہا۔اس حالت میں بھی ، سیاست ہورہی ہے۔اور بلیم گیم جاری و ساری ہے۔ انڈیا ،آج بھی بارڈر پر گولہ باری کر رہا ہے اور امریکہ ایران کے جہاز ڈبونے کی دھمکیاں دے رہا رے۔ امریکہ کا مشہورعالم ،ٹائم سکوائر اور براڈوے سٹریٹ، فرانس کا آزادی کی یادگار،انڈیا کا تاج محل اور گولڈن ٹیمپل، پاکستان کی شاہی مسجد اور داتا علی ہجویری کا مزار،سعودی عرب میں مسجد نبوی اور خانہ خدا پر محدود حاضری اور یورپ اور عربوں کی وسیع و عریض شاہراہیں اور فلک بوس عمارتیں ،تمام ویرانی اور بے سروسامانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔اور انسانی ہیبت کے پتھر اور گارے سے بنے ہوے مجسمہ نما فلک بوس عمارتیں اوراہرام مصر اور لرزتی ہوئی یادگاریں،انسان کی کم ہمتی اور کرونا کے آگے گرتی لاشیں ،اس مالک حقیقی کی عظمت کا ثبوت پیش کررہی ہیں جس کے قبضے میں قرآن کیمطابق ہماری جان ہے ،دوبارہ دوبارہ ہمیں عجز ،انکساری، برابری ،برداشت کا سبق دے رہی ہیں مزید براں، اب بڑی قوموں کو اپنے ساتھ ساتھ چھوٹی اور غریب قوموں کا بوجھ بھی شائد اٹھانے میں ہاتھ بٹانا پڑے۔ہمیں ان غریب ممالک کے غریب عوام اور قوموں کے بارے میں سیاسی مقاصد سے بے نیاز ہوکر اس کرونا نامی وبا سے بچنے کی مدد کرنی ہوگی۔اگر سب نوع انسانی ،سب ترقی یافتہ قوموں نے ایک ہوکر نہ سوچا،تو یہ بعید نہیں کہ صرف یہ آواز آئے کہ…؎
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیا چگ گئی کھیت
آ ج خصوصی طور پر،تمام غیرترقی یافتہ ملکوں میں مکمل لاک ڈاون نہ ہوا تو اموات کی تعداد حد سے نہ بڑھ جائے اور اگر وہ مکمل لاک ڈاون کرتے ہیں ،تو ان کے عوام بیروزگاریاور غربت سے ہی نہ مر جائیں۔اسی طرح، اگر ان غریب ممالک کے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل کی مناسب حفاظتی کٹس ، ماسک ،گلوزاور ضروری سازوسامان نہ دیا گیا،تو علاج کرنے والوں کی اموات ہی نہ بہت ہو جائیں یاد رہے کہ میڈیکل عملہ کی تعداد ترقی پذیر ملکوں میں ترقی یافتہ ملکوں کے مقابل دس گنا کم تعداد ہے ا ن ملکوں کے پاس ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریوں کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور نہ ہی جان بچانے والے وینٹی لیٹرز نہ ہی مریضوںکا پتہ چلانے کیلئے ٹریکنگ کا انتظام تا کہ مرض جہاں جہاں پھیلنے کا امکان ہو ،ٹریکنگ سے اس کا پتہ چل جائے تیسری دنیا کے ممالک کے ہاں ٹیلی ہیلتھ سہولت بھی ابھی بدرجہ اتم موجود نہیں۔ اسی طرح سی ٹی سکین کی سہولت بھی عام میسر نہیں آخری تصدیقی ٹیسٹ ،وباء کا موجودہ پھیلاو کے تناسب کو جانچتے ہو ئے ، پی سی آر کی سہولت بھی خال خال ہی موجود ہے۔آجکل ،ان مریضوں کی تدفین اس کیلئے علیحدہ جگہ،دفناتے وفت کم سے کم افراد کا ہونا، اینٹی سیپٹک سپرے،یا ڈس انفیکٹ کا مردہ جسم پر لگانا، بھی بڑے مسائل میں سے ہیں۔ اسکے علاوہ اب اگرچہ فیلڈ ہسپتال بننے شروع ہوئے ہیں ، لیکن انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت بھی ضروری ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کیلئے غریب ملکوں کی کما حقہ مدد ،ا نکے ضمیر کیلئے، ایک ٹیسٹ ،ایک چیلنج اور ایک آزمائش سے کم نہیں ہوگا۔ جبکہ وہ خود اپنے مسائل سے ، مشکلات سے، نبرد آزما ہیں۔انکی اپنی مین پاور، ٹیکنالوجی،معیشت بھی شدید آزمائش میں سے گزر رہی ہے۔ یو این او کے مطابق کم از کم 2سے 3کھرب ڈالرز کی اس سال میں کمی کا سامنا ہوگااور ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ٹیڈ راس کے مطابق،ایک نئی قسم کی کرونا کی تبدیلی نما شکل زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔بل گیٹس اور ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق60پرسنٹ تمام دنیا کا کاروباری شیئر کم ہوسکتا ہے جبکہ باقی بڑی کمپنیاںاس سے بھی زیادہ خسارے میں جاسکتی ہیں۔ 10پرسنٹ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بالکل ختم ہوسکتی ہیں کیونکہ کرونا کے بعد کی دنیا فی الحال کسی کے علم ہیں نہیں۔کیا کوئی کبھی یہ سوچ سکتا تھا کہ امریکہ اور مغربی حکومتیں ،ویٹو پاور رکھنے والی ترقی یافتہ، قاہر ریاستوں کے ،تمام تر ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوے ،ہزاروں بندے اس دنیا سے کوچ کر جائینگے ا ور امریکہ اور مغربی ممالک بھی منہ دیکھتے رہ جائینگے۔ اس سے ہمیں انسانیت کی طرف لوٹنا ہوگا۔ہبل ٹیلی سکوپ کو اپالو ،ناسا ،ڈرون،ایٹمی آبدوزوںو میزائلوں سے ہٹا کر انسانی وبا کے علاج کی طرف کرنا پڑے گا۔نہ کے انسانیت کو کالے،سفید،مسلم غیر مسلم،ترقی پذیر و ترقی یافتہ،ٹیکنالوجیکل جاسوسی سے حکمرانی کے قبیح افعال سے درگزر کرنا ہی پڑے گا۔ اور ترقی پذیر قوموں کو بھی اپنی ادائوں پر غور کرنا پڑیگا تاکہ وہ بھی مثبت سوچ سے آگے بڑھیں۔اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر نئے دور میں داخل ہوں۔کرونا کے بعد کی دنیا ایسی شاید اب نہ ہو۔ قدرت کو شاید یہ سٹیٹس کو بدلناہے۔کیونکہ قران کے مطابق ،دنوں کو قوموں میں ،ہم تبدیل کرتے رہتے ہیں اور صرف تغیر کو اثبات ہے زمانے میں۔نہ گور سکندر ہے نہ قبر دارا کیونکہ مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے جو ذرا ٹھہرے،کچل گئے ہیں یاکچلے جائینگے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024