سپریم کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کیلئے نظرثانی درخواست مسترد کر دی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ رہائی علاج کیلئے دی تھی، ٹیسٹوں پر ضائع کر دی، معلوم نہیں ہر چیز کو سیاسی رنگ کیوں دیا جاتا ہے، ہر بات پر عدالت کی تضحیک کی کوشش کی جاتی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحیی آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کی۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کی نظرثانی درخواستوں پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کی ضمانت میں توسیع کی جائے تاکہ وہ اپنا مکمل علاج کراسکیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے ضمانت دی تھی، اس وقت عدالت نے ایک بات کی تھی کہ ضمانت کے لئے ہائیکورٹ سے رجوع کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا دیکھتے ہیں کہ ہمارے آرڈر پر نظر ثانی بنتی بھی ہے کہ نہیں، ہمارے پاس نظر ثانی کی درخواست ہے آپ اس پر دلائل دیں۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں نے کہا تھا 8 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس بھی جمع کرائی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرسکتے، نواز شریف کی بیماری کا ڈاکٹرز ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا سپریم کورٹ نے 8ہفتے کی ضمانت دی تھی، یہ میری ابتدائی استدعا تھی۔ خواجہ حارث نے کہا فیصلہ کہتا ہے گرفتاری کے بغیر ضمانت توسیع کی درخواست نہیں دی جاسکتی، فیصلہ زبانی سنایا گیا، تبدیلی فریقین کو سنے بغیر نہیں ہوسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا دستخط سے قبل عدالت تحریری فیصلے کو بھی بدل سکتی ہے،فیصلے سے قبل جو کچھ کہا گیا وہ فیصلہ نہیں عدالتی آبزرویشن تھی۔نواز شریف کے وکیل نے کہا آپ کے فیصلے کے مطابق نوازشریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے گرفتاری دینا لازمی ہے؟، یہ فیصلہ درست نہیں کہ 6 ہفتوں کے بعد جو بھی طبی صورتحال ہو گرفتاری دینا ضروری ہے جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا آج آپ کے لیے تمام راستے کھلے ہیں، 6 ہفتوں کے بعد آپ کے لیے تمام آپشنز موجود ہیں، یہ پورا پیکج ہے جو آپ کو ملا ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا میرے موکل کی ضمانت میں توسیع چاہتے ہیں، ابھی ان کی صحت ایسی نہیں کہ جیل جاسکیں، صحت کو دیکھا جائے تو موکل جیل نہیں جاسکتے، نواز شریف کا علاج جاری ہے، ان کی بیماری بڑھ چکی ہے،انہیں جو علاج درکار ہے وہ پاکستان میں ممکن نہیں، دوران ضمانت ان کا ہائپر ٹینشن اور شوگر کا علاج ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضمانت پر جانے سے تو نوازشریف کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا اچھے ڈاکٹرز، جدید مشینیں موجود ہیں کیسے معلوم ہوا کہ پاکستان میں علاج ممکن نہیں، آپ نے درخواست ضمانت میں میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی تھی، میڈیکل بورڈ نے انجیو گرافی کو لازمی قرار دیا تھا، اسی وجہ سے ہم نے آپ کو ضمانت دی، اب کہتے ہے کہ ملک میں علاج ممکن نہیں، آپ اپنی ہی پہلی درخواست سے باہر چلے گئے،ان کے پاس بہت سے قانونی آپشن موجود ہیں، پاکستان میں علاج کے لیے بہترین ڈاکٹرز موجود ہیں، 6 ہفتہ بعد بھی ان کی اینجیو گرافی نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز کو سیاسی رنگ میں دیکھ کر عدالت کو بدنام کیا جاتا ہے، صرف سزائے موت کے مقدمہ میں ہی سزا معطل ہوتی ہے، عدالتی حکم واضح ہے اگر نواز شریف نے سرنڈر نہ کیا تو ان کی گرفتاری ہوگی ۔ خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی کلوٹیٹ آٹری 50فیصد بڑھ چکی ہے یہ بہت ہی خطرناک ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جن ڈاکٹرز کی رائے آپ بتا رہے ہیں انھوں نے حتمی بات نہیں کی۔وکیل خواجہ حارث نے کہا دنیا میں انجیو گرافی کے متبادل کارڈیک ایم آر آئی کی جاتی ہے، پاکستان میں کارڈیک کی ایم آر آئی ممکن نہیں، کارڈیک ایم آر آئی سے متعلق ہمیں کسی ہسپتال نے جواب نہیں دیا سوائے آغا خان کے، آغا خان نے بھی یہی کہا کہ کارڈیک ایم آر آئی پاکستان میں دستیاب نہیں۔ سابق وزیراعظم کے وکیل نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ دلائل دیئے جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تھینک یو خواجہ صاحب۔اس کے بعد ججز نے کچھ دیر مشاورت کی اور چیف جسٹس نے ڈسمس کہہ کر درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا۔سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو چھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہائی ملی تھی، جس کی مدت 7 مئی کو ختم ہورہی ہے۔یاد رہے سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6ہفتے کے لئے ضمانت منظور کی تھی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا نواز شریف ملک نہیں چھوڑ سکے، وہ 6 ہفتے میں اپنی مرضی کا علاج کرا سکیں گے، نواز شریف 6ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، سرنڈر نہ کرنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024