REJECTED کہنا بنتا ہے
پاکستان جو اسوقت بے شمار اندرونی اور بیرونی معاملات میں ایک مشکل ترین دورکا سامنا کررہا ہے، اگر اندرونی خلفشار ختم ہو تو ہم بیرونی دنیا اور خلفشار کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے اندرونی معاملات ہم حل نہیں کرسکتے اور بیرونی معاملات میں ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں، ناک سے آگے دیکھنے کا عمل جب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے مفادات کو بالا طاق رکھ کر ملک کے مستقبل کیلئے سوچ سکیں، جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے وہ پاکستان کے قیام کے روز اول سے ہی پاکستان کو تباہ کرنے کے خواب دیکھتے ہیں ہمارے اندرونی خلفشار سے ہم انکے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی تعلیم یافتہ شخص کیلئے مذاق سے کم نہیں، اور محب وطن شخص اس صورتحال پر کتنے بھی آنسو بہائے وہ کم ہیں۔ پانامہ لیک کا مقدمہ اعلی عدالت میں جانے پر سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ عدالت جو فیصلہ دیگی اسے قبول کرینگے یہ اور بات ہے کہ دوران مقدمات لوگ سڑکوں، اور ٹیلی ویژن پر آکر ججوںکو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے اور کوشش کرتے رہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں عدالت فیصلہ میں لکھ دے، فیصلہ آیا اور فیصلے کی ٹوپی جب اپنے سر پر نہ بیٹھی تو وزیر اعظم کو فوری عہدہ چھوڑنے کا حکم سڑکوں پر کرتے رہے، اگر یہ روش اس ملک میںچل نکلی تو کوئی بھی حکومت آئندہ قائم نہ رہ سکے گی، اگر کسی حکومت نے ’’اتفاق‘‘ سے ملک کی معیشت سدھارنے کیلئے کوئی اقدامات کئے تو وہ قائم نہ رہ سکے گی، کیونکہ معاشی ترقی کیلئے استحکام ایک اہم رکن ہے۔ جمہوریت میں ایک دوسرے کے متعلق بیانات چلتے رہتے ہیں، جو دوسری اور تیسری درجے کی قیادت کرتی ہے اول درجے کی قیادت جیسے وزیر اعظم کو اس میدان میں کودنے کی ضرورت نہیں ہوتی نہ جانے اپنے جوش خطابت یا ناراضگی کی وجہ سے وزیر اعظم جنکی زبان کبھی اسطر ح کی نہ رہی جسطرح انہوں نے گزشتہ دنوں ایک جلسہ میں حزب اختلاف کی خواتین کیلئے استعمال کی، بات انہوںنے غلط نہیںکی مگریہ وزیر اعظم کے منہ سے نہیں اور پنجاب کے وزیر قانوں ثناء اللہ، یا سعد رفیق کہتے تو کوئی بات نہ تھی۔ وزیر اعظم کے منہ سے اس طرح کی تنقید پر تو اب کم از کم وہ خواتین تو تمام زندگی بھر اگر تحریک انصاف سے متنفر بھی ہو جائیں مگر مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دینگی۔ میں نے بار بار تحریر کیا ہے کہ میاں صاحب کی ٹیم میں فنی خرابی ہے، اگر خورشید شاہ یا تحریک انصاف یہ کہتی ہے کہ بے نظیر بھٹو بھی خاتون تھیں، یا مریم بی بی، اور کلثوم بی بی بھی خاتون ہیں تو میاںصاحب کی طرف سے کوئی کہنے والا نہیں تھا۔مسئلہ خاتون ہونے کا نہیں جلسہ کو رونق بخشنے کے طریقہ کار کا ہے۔
ابھی یہ مسائل ختم نہ ہوئے تو ڈان لیک کا معاملہ شروع ہوگیا، سب سے پہلا مسئلہ تو یہ کہ ہماری مادر پدر آزاد صحافت میں اب اسکا بھی خیال نہیں ہے کہ کیا چیز ملک میں اہم ہے، اب اہم میرا نام یا میری خبر ہے، اگر وہاں سے شروع کیا جائے اس بات سے قطع نظر کہ وزیر اعظم ہائوس میں وہ بات بھی ہوئی تھی یا نہیں جسکا تذکرہ خبر اخبار ڈان نے کیا تو اخبار اگر محب وطنی کا مظاہرہ کرتا تو یہ خبر شائع ہونا نہیں چاہئے تھی، مگر جس نے بھی سچی یا جھوٹی خبر اخبار کو فراہم کی اسکے ذہن میں صرف شرارت ہی نہیں بلکہ سازش بھی تھی، ملک دشمنی بھی تھی۔ دوسری جانب بہت انتظار کے بعد اگر تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ پیش بھی کردی تھی تو پھر بھی سازش رکی نہیں بلکہ نا مکمل نوٹیفیکشن کے صورت میں آگئی، اس پر وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے اس بات کا بھی بھرم کھل گیا اور بات سامنے آگئی کہ وزیر اعظم ہائوس اور وزیر داخلہ میں جو کھنچائو ہے وہ سامنے آگیا، اس پر جلد بازی میں آئی ایس پی آر نے یہ بات کھول کر رکھ دی کہ وہ دعوے کہ ’’سب ایک صفحے پر ہیں‘‘ صحیح نہیں۔ وہ صفحے بکھر گئے۔ کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ تمام کہ تمام متعلقہ لوگ تحقیقاتی رپورٹ کو ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے، اور اپنے تحفظات کا اظہار ایک ساتھ بیٹھ کر بند کمرے میں کرتے پھر ضروری ہوتا تو اسے میڈیا میں یا عوام کے سامنے لاتے، تاکہ ملک کا استحکام ، تمام اداروں کا احترام تو رہتا۔ ملک کی سا لمیت اور مضبوطی اور اداروں کی مضبوطی کیلئے یہ تمام اقدمات ضروری تھے بجائے اسکے اب جو تماشہ بن رہا ہے اور کالم نگاروں، مالا مال اینکرز کو اپنے دل کی خواہشات پوری کرنے کا موقع مل رہا ہے اینکرز نے اپنا میٹر آن کردیا ہے۔ جو ہر گز بھی ملک کی آج کی صورتحال کیلئے بہتر نہیں ہے۔ کالم نگار اور تبصرہ نگارحضرات میاں صاحب کی ملک کے اہم اداروںسے جھگڑوںکی تاریخ بیان کرکے زخم ہرے کررہے ہیں۔ رائو تحسین، جیسے لوگوں کو نہ جانے کس جرم کی سزا دی گئی ہے، رہے مشیر خارجہ طارق فاطمی صاحب تو پاکستانی عوام وزیر اعظم کے بہت تعریف کرتے اگر انہیںملک کی وزارت خارجہ اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے علیحدہ کیا جاتا، ہمارے سفارت کار کشمیر اور پاکستان کے دیگر معاملات پر ایک جاندار سفارت کاری کرنے سے قاصر ہیں، وہاں بھی اندرونی مسئلہ ہے شنید یہ ہے محترم سرتاج عزیز اور فاطمی صاحب ایک ’’ صفحہ ‘‘ پر نہیں تھے۔ جہاں وزارتوں میںآپس میں الجھن ہو ایک دوسرے سے بات چیت سے بھی بے زار ہوں وہاں اجتماعی کام کیسے ہوسکتا ہے؟؟ جب سیاسی حکومت کے کارندے ایک دوسرے سے مخلص نہ ہوں تووہاں انکے غیر مکمل نوٹیفکشن کو REJECTED کہنا بنتا ہے گھر میں ہم آہنگی نہ ہو تو پڑوسی تو گھر میں دخل اندازی کرینگے۔ اسوقت جبکہ پاک افواج ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوششوں میں اپنے جوانوںکی قربانیاں دے رہی ہے، اس موقع پر پاکستان دشمن بھارت کے ’’بیک ڈور‘‘ سفارت کار مودی کے ’افسر بکار خاص‘ جندل کی آمد ایک اور افسوسناک عمل ہے۔ میاں صاحب بہادر ہیں ایسے کام کرتے رہتے ہیں، کیونکہ کوئی مشیر یا تو مشورہ نہیں دیتا یا میاں صاحب مشیروں کی بات مانتے نہیں۔