موسم گرما کے ملبوسات
گرمیوں کے ابتدائی دنوں میں زیادہ تر گلے کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ننھے منے طالب علموں کو سکول سے گھر واپس آتے ہی شدت کی پیاس محسوس ہوتی ہے ایسے میں گھر پہنچتے ہی وہ فریج کا رُخ کرتے ہیں ،ان کا جی یخ بستہ پانی پینے کو جی چاہتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان لمحات میں پانی میں جو لذت محسوس ہوتی ہے وہ کسی اور مشروب میں نہیں، بچے سکول سے گھر پہنچتے ہی کھڑے کھڑے پانی کی بوتل سے پیاس بجھا لیتے ہیں، پانی کو گلاس میں ڈالنے کی زخمت گوارا نہیں کرتے،پہلی بات تو یہ کہ کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا گیا ہے اور دوسری بات یہ کہ بوتل سے منہ لگاناغیر اخلاقی فعل ہے،پانی گلاس میں ڈال کر اوربیٹھ کر تین سانسوں میں پینا چاہئے جو کہ صحت کے لئے اچھا ہے اور سنت بھی، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ضرورت سے زیادہ ٹھنڈا پانی گلے کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔بدلتے موسم میں اگر چھوٹی موٹی باتوں کا خاص خیال رکھا جائے تو بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتناطاقتور دماغ عطاکیا ہے،کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے دماغ کا استعمال ضرور کریں اور بعد میں اللہ پر چھوڑ دیں۔
موسم گرما اپنی ابتدائی مراخل یعنی گرمی میں داخل ہوچکا ہے‘ بے شک وہ جھلسا دینے والی دھوپ اور گرم لو کے تھپیڑوں کا موسم نہیں ، لیکن اس موسم میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے آنے والے مہینوں میں شدید گرمی کی پشین گوئی کی گئی ہے‘ بدلتے موسم میں جب گرمی کا آغاز ہوتا ہے تو ننھے منے بچے اور بچیاں اس موسم کے لحاظ سے اپنے ملبوسات سلواتے ہیں۔رواں موسم میں کاٹن کے باریک کپڑے جن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہوتی ہیں سلوائے جاتے ہیں ،بچے اس موسم میں زیادہ تر ہاف سلیو کی شرٹ جبکہ بچیاں لون اور وائل کے دیدہ زیب ڈیزائن کے ملبوسات پہنتے ہیں۔ ہاف سلیو شرٹس پہن کر گرمی کا احساس تو کم ہو جاتا ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ بازو¶ں کا رنگ بدل جاتا ہے اوردھوپ میں زیادہ پھرنے سے چہرے کی رنگت پر بھی فرق پڑتا ہے،دھوپ میں گھومنے پھرنے اورکھیلنے سے بھی چہرے کی رنگت بدل جاتی ہے ، دھوپ و لو سے بچنا چاہئے اس سے نہ صرف سن سٹروک کا خطرہ رہتا ہے بلکہ اکثر بچوں کا رنگ گندمی پڑ جاتا ہے۔سردیوں میں گرم کپڑے اس لئے پہنتے ہیں کہ کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے،لیکن گرمیوں میں بھی دھوپ کی شدت سے محفوظ رہنے کے لئے کاٹن کے ملبوسات سے جسم کو ڈھانپنے کی اشد ضرورت ہے،اپنے جسم کو دھوپ یا لوکے حوالے نہیں کیا جا سکتا،اکثر بچے لاپروائی سے کام لیتے ہوئے ننگے سر دھوپ میں نکل جاتے ہیں،بچوں کی زرا سی لاپروائی سے ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے،اس موسم میں دھوپ میں نکلتے وقت سر پر باریک کپڑا یاکیپ ضرور ہونی چاہئے بچے تو سر پر کپڑا تو نہیں رکھتے البتہ باریک کیپ پہنتے ہیں جو دھوپ کی شدت کو ختم نہیں توکم ضرورکر دیتی ہے۔
گرمیوں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ گو کہ سکول کا ٹائم بھی بدل جاتا ہے لیکن جہاں موسم سرما میں صبح کمبل یا رضائی سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا وہاں موسم گرما میں بھی ٹھنڈے کمرے سے باہر نکلنے کودل نہیں چاہتا بلکہ صبح آنکھ نہیں کُھلتی،اکثر بچے جلدی میں تیار ہوتے ہیں اور بغیر ناشتہ کئے سکول کی راہ لیتے ہیں جو بچوں کی صحت کیلئے اچھا نہیں جبکہ رات کو تاخیر سے سونا بھی بچوں کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔بات ہو رہی تھی موسم گرما کے کپڑوں کی‘ اس موسم میں پسینہ بار بار آنے کی وجہ سے کپڑے روزانہ تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں چونکہ پسینہ نہیں آتا اور کپڑے پہننے کا مزہ بھی آتا ہے۔ رواں موسم میں سکول کا یونیفارم بھی روزانہ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔موسموں کا مزاج اور موڈ پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ خوشگوار موڈ میں بچے نہ صرف پڑھائی میں دل چسپی لیتے ہیں جبکہ اُکتائے ہوئے مزاج کے ساتھ پڑھنے لکھنے میں جی نہیں چاہتا، بلکہ کچھ کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ موسم خوشگوار ہو تو مزاج دلکش ہوتا ہے۔ کھِلے کھِلے موسم میں ذہنی صلاحیتیں زیادہ نکھر جاتی ہیں۔ سمجھنے اورذہن میں جذب کرنے کی قوتیں دوچند ہو جاتی ہیں۔دلکش موسم میں بچے پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ کھیل کود میں بھی خوب دھماچوکڑی مچائے رکھتے ہیں۔ صحت افزا مقامات کی سیر بھی موسموں کی خوبصورتی کے ساتھ ہی پسند کی جاتی ہے۔ پسینے میں شرابور حالت یا پھر سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے موسم میں سیر کا وہ لطف نہیں اٹھایا جا سکتا جو ایک معتدل موسم میں حاصل ہوتا ہے۔ موسم سارے فطرت کے عین تقاضوں کے مطابق ہیں انسان سب موسموں کو پسند کرتا ہے لیکن وہ جتنا موسموں کے آنے کا انتظار کرتا ہے اتنا ہی جلدی ان موسموں سے اکتا بھی جاتا ہے۔ موسم وقت اور زمانے کی آمدورفت کا حساب بھی بتاتے ہیں۔ شب و روز کے بڑھنے اور گھٹنے کی مقدار بھی موسموں کی مرہون منت ہے۔
ہم خوش قسمت ہیں جس خطہ میں ہم رہتے ہیں جہاں چار موسم ہیں اور ہر موسم کااپنا ہی مزہ ہے موسم سرما‘ گرما‘ بہار اور خزاں گرمیوں میں شدت کی گرمی ہوتی ہے اور پسینہ بھی خوب آتا ہے۔ دو ماہ کا قلیل عرصہ زیادہ گرمی کی وجہ سے بڑا طویل لگتا ہے ان دنوں چند گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں ہوتی ،ایسے میں ہم بارش کی دُعا کرتے ہیں، جب موسم برسات آتا ہے توچند روز کی موسلادھار بارش سے بھی جلد اُکتا جاتے ہیں اس کے بعد حبس کا موسم ہوتا ہے۔ اس موسم میں گرمی دانے اور پھنسی پھوڑے نکل آتے ہیں اور اگر ائرکنڈیشنڈ میں وقت گزارا جائے تواس سے بچا جاسکتا ہے۔
گرمیوں کے موسم میں جسم سے اندر کی بیماریاں پسینہ کی صورت میں خارج ہوتی ہیں۔ابھی تو موسم گرما کی ابتدا ہے، گرمیوں کے موسم کی بہت خوبصورت خیزگرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں‘ دو تین ماہ تک مسلسل گھر میں رہنا‘اس کے علاوہ مختلف مقامات پر چھٹیاں گزارنے کے مواقع گرمی کے موسم کی دلکش ترین دلچسپی ہے۔ رشتے دار چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔کزنوں کے ساتھ کئی کئی روز تک شب روز گزارنے کا انتظار چھٹیوں کے آغاز سے شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی اگر چھٹیاں گزارنے کیلئے رشتے داروں کے ہاں جانا ہو تو اس خوشی میں کئی دن نیند نہیں آتی۔ اسی طرح جب چھٹیاں ختم ہونے کو ہوں تو گزرے ہوئے لمحات بھلائے نہیں بھولتے اور تا حیات ذہن پر نقش رہتے ہیں۔