نقل کا بڑھتا رجحان
والدین‘ اساتذہ‘ نظام تعلیم اور محکمہ تعلیم میں سب اس کے ذمہ دار ہیں
پاکستان کے تعلیمی نظام کی صورتحال سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ اس میں کئی قسم کی خرابیاں ہیں جن کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تعلیمی نظام سے مراد ہے کہ کسی معاشرے کو بہتری کی بنیاد فراہم کرنا۔ ہمارے ملک میں ہر سطح پر بڑی تعداد میں بچوں کو ہم سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے دراصل تعلیم یافتہ فرد کسی کے آگے بے جا سر نہیں جھکاتا لہذا کہیں گاؤں میں زمین دار تعلیم کو عام ہونے سے روکتا ہے اور کہیں شہروں میں نقل کروا کر ذہنی غلام پیدا کئے جا رہے ہیں افسوس ناک امریہ ہے کہ امتحانی مراکز بھی خریدے اور بیچے جاتے ہیں جہاں طلبا امتحان میں کامیابی کے جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں پاکستان کے شہروں اور دیہات میں یہ وبا اتنی پھیل چکی ہے کہ والدین خود امتحانی مراکز پر جاکراساتذہ سے کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو نقل کروا کر پاس کروایا جائے والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ سارا سال ان کے بچے کتابوں کو کتنا وقت غیر نصابی سرگرمیوں میں گزارتے ہیں لیکن امتحانات قریب آتے ہی ان سے بہترین نتائج کی امیدیں لگاتے ہیں یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس کے خلاف شعور و آگاہی کا آغاز نہیں کیا جاتا اسلام میں استاد کا درجہ مقام والدین سے بھی افضل ہے قصوروار استاد بھی ہیں جنہوں نے تعلیم کو تجارت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے جیبیں بھرتے ہوئے کوچنگ سینٹر چلانا شروع کر دئیے ہیں۔ اساتذہ ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں طلباء کو نقل سے دور کرنے کے لئے شعوروآگاہی کے ساتھ ٹھوس علمی اقدامات کی اشد ضرورت ہے طلبہ صرف اساتذہ کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ والدین اور اساتذہ کا یکساں فرض ہے کہ ان پر خصوصی توجہ دیں محکمہ تعلیم بھی امتحانات کے نظام میں ایسی تبدیلیاں لائیں کہ طلباء نقل کی بجائے ذہانت اور علم کے مطابق پرچہ حل کر سکیں اسی صورت میں ایک روشن مستقبل کی شروعات ہو سکے گی۔
(اقرا شبیر طاہر)
……………………