آج مقابلہ پاکستان کے سبزہلالی پرچم اوربھارتی ترنگے میں ہے سجن جندل کا خاندان ساری دُنیا میں بھارتی ترنگا سربلند کرنے کا مشن اپنائے ہوئے ہے جس کے لیے "Flag Foundation"نامی ادارہ بنایاگیا ہے جس کا بنیادی مقصد بھارتی ترنگے کو عالمی سطح پر متعارف کرنا ہے اس مقصد کے لیے بھارت میں موقع بہ موقع ترنگا لہرانے کے لیے جندل خاندان نے طویل قانونی جنگ لڑی ہے اوربے پناہ سرمائے کے زور پر بھارتی سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ کرواکرچھوڑا ہے بھارت کے ارب نہیں ،کھرب پتی خاندان نے اب یہ ترنگا پاکستان پر لہرانے کا بیڑا اُٹھا یا ہے ۔لیکن 20کروڑ غیرمندپاکستانیوں کے ہوتے ہوئے
اَیں خیال اَست و محال اَست
والا معاملہ ہوگایہ جرائم اورگناہوں کے ذریعے اکٹھی کی گئی دولت کے انبار اورپاکستانی قوم کے جذبہ صادق کے درمیان مقابلہ ہے جس میں سبزہلالی پرچم لہرانے والے سرخروہوں گے۔دولت نے ہمیشہ پوترجذبات سے شکست کھائی ہے انشاء اللہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی ۔
مایہ ناز بھارتی رپورٹر برکھا دت اپنی پہلی کتاب ’یہ سرزمیں بے سکون‘(This Unquiet Land) میں اقتدار کے پر اسرار ایوانوں میں جاری کارروائیوں کی کہانیاں بیان کرتی ہے عہد قدیم کے پر شکوہ داستان گوئوں کے روشن نقوش پر چلتے ہوئے قاری پر ایسا سحر طاری کرتی ہے کہ وہ دنیا وجہان سے لاتعلق ہوکر اس کے انداز بیاں کے پیچ و خم میں ایسا الجھتا ہے کہ سب کچھ بھول بھال جاتا ہے برکھا بتاتی ہے کہ سجن جندل نواز شریف نہیں ،بھارتی وزیراعظم مودی کے دوست ہیں جنہوں نے کھٹمنڈومیں ہونے والی گذشتہ سارک کانفرنس میں مودی کے کہنے پر نواز شریف سے خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا تھا وہ یاد دلاتی ہے کہ سارک کانفرنس کے موقع پر دونوں ممالک میں حالات خاصے کشیدہ تھے جس کی وجہ سے نریندر مودی برسرعام وزیراعظم پاکستان سے ملنے کا ایڈونچر نہیں کرناچاہتے تھے جس کی وجہ سے نفرت کی بنیاد پر کھڑا ان کی مقبولیت کا مینار زمین بوس ہونے کا خطرہ تھا اس لیے وہ اپنے حامیوں اورووٹروں کے سامنے سخت گیر رویہ اورسرد مہری کا برتائو جاری رکھے ہوئے تھے اس لیے دونوں وزراء اعظم نے ذرائع ابلاغ کے سامنے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک دوسرے سے لا تعلقی اور بے اعتنائی کا رویہ اپنائے رکھا جبکہ مودی کھٹمنڈو پہنچتے ہی سجن جندل کو فوری طورپر کھٹمنڈوپہنچ کر ’سرحد پار والے اپنے دوست (نوازشریف)سے خفیہ ملاقات کرانے کا حکم دے چکے تھے ‘۔
جس کے بعد دونوں وزرا اعظم مودی اورنواز شریف کی ایک گھنٹہ طویل خفیہ ملاقات جندل کے کمرے میں ہوئی جس میں مودی نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات چند ہفتے بعد ہونے والے ہیں یہ بڑا حساس معاملہ ہے اس لیے مجھے آپ سے چھپ کر ملنا پڑا۔مودی نے یہ بھی کہا کہ میں باضابطہ مذاکرات کے لیے مختلف ذرائع تلاش کررہا ہوں لیکن موجودہ حالات میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے برکھا دت انکشاف کرتی ہیں کہ جناب نواز شریف نے مودی کو بتایا کہ کس طرح سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ (پاک فوج) دبائو بڑھا کر ان کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہے جس کی وجہ سے بتدریج ان کی پوزیشن فوجی قیادت کے سامنے کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے جس پر دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ اچھے وقت کا انتظار کیاجائے جب ہم کھلے عام عوامی حمایت کے بل بوتے پر زیادہ آزادی سے مستقبل کے فیصلے کرسکیں ۔وہ بتاتی ہے کہ وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برداری کے بعد سجن جندل نے جناب نواز شریف کے اعزاز میں چائے پارٹی کا اہتمام کیا تھا جس پر بھارتی ذرائع ابلاغ بہت زیادہ توجہ نہیں دی تھی لیکن پاکستان میں اس حوالے سے جناب نواز شریف کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے جندل کی چائے پارٹی کے لیے تو وقت نکال لیا لیکن حریت پسند ـ’پاکستان نواز کشمیری قیادت سے ملاقات کرنے سے منع کردیا تھا جو کہ سبزہلالی پرچم اُٹھائے اپنی جانیں نچھاور کررہے ہیں جبکہ بھارتی ترنگا ساری دنیا میں لہرانے والے سجن خاندان کی چائے دعوت میں جانے کو ترجیح دی تھی وہ لکھتی ہیں کہ بھارت میں اب یہ کھلا راز ہے کہ 25ارب ڈالر سے زائد اثاثوں کے مالک پنجابی ’’لوہے کا کاروبار کرنیوالا‘‘ یہ خاندان کابل سے پاکستان کے ذریعے بلا روک ٹوک خام لوہا کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے جنوبی بھارت کی بندرگاہوں تک پہنچانا چاہتا ہے جس کے لیے اجاز ت صرف اورصرف جناب نواز شریف دے سکتے ہیں برکھا دت جناب نواز شریف سے اپنی بے تکلفی کے بارے میں بتاتی ہیں کہ انہوں نے مجھے دہلی کے 7ستارہ تاج مان سنگھ ہوٹل چائے کی دعوت پر بلایا ہوٹل لابی میں دیکھا کہ سجن جندل نوازشریف کے بڑے بیٹے حسین نواز کو ظہرانے کے لیے لیجارہا تھا دونوں بے تکلف دوستوں کی طرح بازومیں بازو ڈالے ہوئے گپیں لگا رہے تھے جبکہ 58سالہ سجن جندل اورحسین نواز کی عمروں میں زمین آسمان کا فرق ہے اب احساس ہوتا ہے کہ جندل خاندان سے شریف خاندان کے رسمی کاروباری مراسم حدوامکان سے گہرے ہوچکے ہیں۔ اب تو عالم یہ ہے پاک بھارت وزراء اعظم تمام خفیہ معاملات انجینئر سجن جندل کے ذریعے طے کرتے ہیں۔
برکھا انکشاف کرتی ہے کہ میں نے وزیراعظم نواز شریف کو انٹرویو دینے پر آمادہ کرلیا ہم نیچے اُترے تو ہوٹل کی کافی شاپ میں ناشتے کے لیے بہت بڑا وفد نواز شریف کا منتظر تھا جہاں جناب نوازشریف اپنی پسندیدہ فلم ’مغل اعظم‘ کے ڈائیلاگ سناتے رہے قصے،کہانیاں اور لطائف کا تبادلہ ہورہا تھا اورپرانی یادیں سنائی اور دہرائی جارہی تھیں ناشتے کی میز پر جناب عزیز اس وقت کے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی موجود تھے جن سے میری شناسائی دہلی ہائی کمشن میں ان کی تعیناتی کے دنوں سے تھی برکھا دت بتاتی ہیں کہ میرے ساتھ اک پاکستانی رپورٹر بھی بیٹھا ہوا تھا مجھے اس شاہانہ ناشتے اورجاری گپ شپ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی میں نے جناب نواز شریف سے درخواست کی کہ وہ ہوٹل لابی میں میرے ساتھ انٹرویو کے لیے چلیں جہاں کیمرہ مین اور پروڈیوسر ہمارا انتظارکررہے ہیں یہ سنتے ہی وہ پاکستانی اخبارنویس کہنے لگا کہ من موہن سنگھ نے کسی پاکستانی رپورٹر کو انٹرویو نہیں دیا اس لیے پاکستانی وزیراعظم کا بھارتی اخبار نویس کو انٹرویو دینا بڑی ناانصافی ہوگی وہ بتاتی ہیں کہ اسی اثنا میں ناشتے کی میز پر جاری گفتگو کا رخ پاکستانی پنجاب ،وزیراعلی شہبازشریف اورجماعت الدعوۃ کو سرکاری فنڈدینے کی طرف مڑ گیا جس کا ذکر بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ امریکی صدر سے بھی کر چکے تھے کہ پاکستان ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث حافظ سعید کے زیراہتمام سکولوں ،مدرسوں ،ہسپتالوں اورمسجدوں کی مالی مدد کررہا ہے اورمن موہن سنگھ نے پاکستان کو دہشت گردی کامرکز اور علاقے کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا تھا جس کے جواب میں صدر اوباما نے کالعدم لشکر طیبہ کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا تھا برکھا بتاتی ہے کہ اس مرحلے پر نوازشریف نے میری طرف پلٹ کر پوچھا کہ دونوں ممالک کے رہنما ملنے والے تھے اس مرحلے پر بھارتی قیادت نے امریکہ سے شکایت کیوں کی جس پر میں (برکھا) نے بتایا کہ من موہن سنگھ پاکستان کے اپنے آبائی تعلق اورجائے پیدائش کی وجہ سے پہلے ہی خاصے دبائو کا شکار ہیں اورانہیں پاکستان کے حوالے سے نرم رویہ رکھنے کے الزامات کا سامنا رہتا ہے شائد اس لیے انہوں نے صدر اوباما سے شکایت کرنا ضروری سمجھا جس پر جناب نوازشریف نے پنجابی اور اُردو میں ایک کہاوت سنائی کہ ایک گائوں میں کسی خاتون کا اپنے ہمسائے سے جھگڑا ہوگیا جس کے بعد دونوں فریق فیصلہ کرانے کے لیے گائوں کی پنچائیت میں پہنچ گئے مولوی صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ کسی تیسرے فریق کو ملوث کرنے کی بجائے انہیں مل جل کر یہ تنازعہ نمٹانا چاہیے تھا ظاہر ہے نوازشریف بتارہے تھے کہ پاکستان کو باہمی تنازعات میں کسی تیسرے فریق کو ملوث کرنے کی بجائے انہیں خود حل کرنا چاہیے میں پاک بھارت بات چیت میں تعطل اوردیگر مسائل پر دبائو کی وجہ سے اس لوک کہانی پر توجہ نہ دے سکی وزیراعظم نواز شریف سے مختصر انٹرویو کے بعد فارغ ہوئی تو سارے ہندوستان میں ہنگامہ برپا ہوگیاکہ نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو ’لڑاکا دیہاتی عورت‘ قراردیا ہے جس پر مودی کیسے پیچھے رہتے اورانہوں نے عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کے منصب کی توہین پر زمین آسمان ایک کرکے ایسا واویلا شروع کیا کہ دُنیا دنگ رہ گئی اوربی جے پی انتخابی فتح کی راہ ہموار ہوگئی ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024