جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹی ٹیچرز کے مسائل
سال۲۰۱۶ءمیں سرکاری اور نجی سکولوں کے مابین کئے گئے سروے میں بتایا گیا کہ سرکاری سکولز کے طلبہ کے پاس جدید آئی سی ٹی ایس کی شدید قلت ہے حالانکہ۲۰۰۸ءمیں حکومت پاکستان کے آئی سی ٹی ان ایجوکیشن کے نام سے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے درمیان ٹیکنالوجی کے فرق کو ختم کرنے کیلئے ہر سرکاری سکول کو تین عدد کمپیوٹر اور ورچوئل ڈیسکٹاپ اکیس دینے کا اعلان کیا لیکن اس پالیسی پر بھی کوئی خاطر خواہ عملدرآمد نہ ہوا۔ ٹیکنالوجی کے نام پر جو چند کمپیوٹرز مہیا کئے گئے وہ تو زمانہ قبل از مسیح کے معلوم ہوتے ہیں یا پھر زیب و زینت کیلئے ہیں جن سکولوں کو جدید کمپیوٹر فراہم بھی کر دئے جائیں قیمتی ہونے کا بہانہ بنا کر طلبہ کو ہاتھ نہیں لگانے دیا جاتا اور انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہ ہونے کی بنیاد پر طلبہ ‘ اساتذہ ایسے کس طرح کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں اضافہ کر سکیں۔ یہ پروگرام پنجاب میں زنانہ/ مردانہ ہائی سکولز میں شروع کیا گیا ہے۔ ابھی تک مڈل اور پرائمری مدارس نے اس قسم کے سنہرے خواب دیکھے ہی نہیں ہیں جبکہ نجی سکولز میں جدید قسم کے کمپیوٹر فراہم کئے جاتے ہیں۔ طلبہ سے استعمال کرائے جاتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر وہ اپنے اسباق کی تیاری تازہ ترین معلومات حاصل کر کے اپنے علم میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ کلاس میں اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ طلبہ اساتذہ کے لیکچرز کو لیپ ٹاپ‘ ٹیب یا ٹیب ریکارڈ کے ذریعے نوٹ کر سکتے ہیں۔ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کیلئے انہیں مختلف موضوعات کی ترغیب دی جاتی ہے۔ وہ ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے آن لائن کوئی کتاب پڑھ یا تحقیق کر سکتے ہیں جبکہ ایسی تمام سہولیات کا آن لائن سرکاری سکولز میں فقدان ہے۔
میں خادم اعلیٰ پنجاب اور سیکرٹری ایجوکیشن سکولز پنجاب کی اس طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ آئی ٹی ٹیچرز کی بھرتی میں لکھا جاتا ہے کہ کمپیوٹر پڑھانے والا استاد وہ بھی ایک سکول میں ایک آئی ٹی ٹیچرز کی آسامی بالکل کم ہے ہائر سیکنڈری سکولز میں اس کی اہمیت پھر بڑھ جاتی ہے مثلاً ششم ‘ ہفتم ‘ ہشتم‘ نہم‘ دہم فرسٹ ائر‘ سیکنڈائر کی کلاسز میں کمپیوٹر لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے آئی ٹی ٹیچرز سے پیشہ ورانہ ڈیوٹی کو اولیت دینے کی بجائے اس سے آئی ٹی کلرک کے فرائض سر انجام دلوائے جاتے ہیں۔ آواز بلند کرنے پر انہیں سروس سے فراغت اور اس کیلئے مزید مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں چند غیر ضروری فرائض متعلقہ دفاتر کے اہلکاروں سے کرانے کی بجائے آئی ٹی ٹیچرز سے بیگار کے طور پر کرائے جاتے ہیں۔ مردم شماری‘ الیکشن آفس ‘ایجوکیٹر ریکروٹمنٹ‘ ریونیو لینڈ ریکارڈ‘ فلڈ ڈیوٹی فوڈ ڈیپارٹمنٹ ‘ محکمہ تعلیم کے دفاتر میں ڈیٹا فیڈ کرنے کی ذمہ داری آئی ٹی ٹیچرز کے گلے کا پھندا بن چکا ہے۔ اس طرح طلبہ کی تدریس متاثر ہوتی ہے اس بات کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ قوم کے بچوں کا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ سیکرٹری سکولز ایجوکیشن پنجاب کے احکامات کہ آئی ٹی ٹیچرز سے صرف اور صرف بچوں کی تدریس کی ڈیوٹی لی جائے۔ زمینی حقائق میں ان کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ میری حکومت پنجاب سے گزارش ہے متعلقہ دفاتر کا جم غفیر جو حکومت پنجاب سے تنخواہ لیتا ہے اپنے فرائض خود سر انجام کیوں نہیں دیتے اس سلسلہ میں میری تجویز ہے۔ پنجاب کے جملہ دفاتر میں ایک کمپیوٹر لیب دی جائے وہاں کے عملہ کو پرانی ٹائپ مشینوں کے دور سے نکال کر جدید کمپیوٹر کی ٹریننگ دی جائے۔ ہر برانچ اپنا کام اپنے کمپیوٹر پر خود کرے تاکہ رفتار کار بڑھائی جا سکے لیکن ستم ظریفی یہ ہے ابھی گندم کے باردانہ ڈیٹا کیلئے کمپیوٹر ٹیچرز کے آرڈر ڈپٹی کمشنر لیول کے افسران کر رہے ہیں آخر قوم کے ہونہار بچوں کا قصور کیا ہے؟ پڑھائی کے ابتدائی ایام ہیں۔ ان کے کمپیوٹر کے اساتذہ غائب ہیں کسی نے کیا خوب کہا تھا۔
شام ہے کتنی بے تپاک‘ شہر ہے کتنا سیم ناک
ہم نفسو کہاں ہو تم جانے یہ سب کدھر گئے؟
اب تو صورتحال یہ ہے۔ سکولز کی جملہ ڈاک آئی ٹی ٹیچرز کے ذمہ ہے ۔ خدمت کارڈ بنانے ہوں‘ رجسٹریشن طلبہ‘ ماہانہ ڈاک کی تیاری یہ سب مظلوم آئی ٹیچرز کے گلے کا پھندا ہے ۔ خدمت کارڈ کیلئے باہر دفاتر لگانے کے بجائے زنانہ ادارہ جات کے اندر تقدس چادر چار دیواری کو پامال کیا جاتا رہا ہے۔ آخر میں استدعا ہے اساتذہ کرام خصوصاً آئی ٹی ٹیچرز کو سکولز میں پڑھانے کی ڈیوٹی کے علاوہ باہر ڈیوٹی نہ لگائیں بچہ قوم کی مقدس امانت ہے اس کی حفاظت کرنا ہر سب کا فرض ہے۔