ڈیرہ غازی خان۔کچھ تو سُنیے
لاوارث شہر ڈیرہ غازیخان کے حوالے سے یہ دوسرا کالم ہے۔ اویس لغاریMNA چیئرمین فورٹ منرواتھارٹی کی ڈیرہ غازیخان کے مقامات میں اس بیان کے حوالے سے لکھا گیا کہ وہ فورٹ منرو کو مری ہلز کے معیار تک پہنچا دیں گے یا نہیں۔ اس پراجیکٹ پر ڈیڑھ ارب روپے کی بجائے اب ساڑھے چار ارب روپے خرچ ہونگے۔ لیکن اب نیا انکشاف یہ ہوا ہے جو کہ حقیقت پر مبنی ہے کہ فورٹ منرو کے لئے مختص کی ہوئی رقم میں سے جو پانچ ارب روپے تھی چار ارب روپے واپس لاہور بھجوا دئے گئے ہیں۔یقینی طور پر بقایا ایک ارب اتھارٹی کے چیئرمین اور افسران اپنے اختیارات کے تحت مراعات میں وصول کر لیں گے۔
ڈی جی خان میں مسلم لیگ ن کے ایم این اے کی زیرقیادت شہر میں جلوس نکالا گیا۔ مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ سرکردہ لوگوں نے جھومر ڈالی سوشل میڈیا پر تصاویر شائع ہوئیں۔ مگر اصل بات تو یہ ہے کہ فیصلہ ملزمان کی عبوری ضمانت یا ضمانت قبل از گرفتاری ہے کیونکہ فیصلہ تو ملزمان کے خلاف ایف آئی آر ہے تفتیش ہونا ابھی باقی ہے اگر چالان ہوں گے تو ضمانت بھی منسوخ ہو جائیگی ہاں عبوری ضمانت پر جتنی مٹھائی بانٹیں ان کا حق ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قبل از وقت گرفتاری کی ضمانت گرفتاری پر ہی ختم ہوتی ہے وقت کا انتظار مناسب ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ کیس کی اس عارضی ریلیف کی خوشی میں ڈیرہ غازیخان شہر میں ن لیگ کے اس جلوس میں مقامی ایم پی اے نظر نہیں آئے۔ غالباً میئر کے الیکشن ہارنے پر جس طرح وہ اپنے امیدوار سے گلے ملکر رو رہے تھے اور سوشل میڈیا پر یہ فوٹیج چلتی رہی۔ شاید اسی غم میںابھی تک مبتلا ہیں یا پھر حسب ضرورت سیاسی پارٹی بدلنے کا عزم لئے ہوئے ہیں اور اپنی نئی آماجگاہ کی تلاش میں ہیں کیونکہ” حصول رزق“ کے لئے چین جانا ضروری ہے۔ ڈیرہ غازیخان لاوارث شہر ہی نہیں لاوارث ضلع بھی ہے۔ ایم این اے ‘ ایم پی اے صاحبان اپنے اپنے حلقہ میں ترقیاتی فنڈز کی بندر بانٹ میں مصروف رہتے ہیں۔ یورپی ضلع میں آپ جہاںچاہیں دیکھ لیں پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ سیوریج اور ........ کا انتظام نہیں ہے کوئی قابل ذکر ہسپتال نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں کا معیار اور انتظام انتہائی ناقص ہے۔ اعلیٰ افسران ڈیرہ غازیخان تعینات ہونا پسندکرتے ہیں لیکن رہائش رکھنا پسند نہیں نکاسی آب۔ کرتے کسی نہ کسی بہانہ سے اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جا کر میٹنگ کے حوالے سے ڈیرہ غازیخان سے باہر ہی رہ جاتے ہیں اس لئے انہیں شہری عوام مسائل کا احساس ہی نہیں رہتا۔ اقتدار میں رہنے والے پارلیمنٹرین ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ہماری پرانی روایات اور ثقافت کو گرد آلود کر دیا گیا ہے کچھ روز پہلے اسلام آباد میں گھڑ سواری کے مقابلہ کو ٹی وی چینلز پر اجاگر کر کے دکھلایا جا رہا تھا۔ یہ مقابلہ اور یہ میلہ شہر ڈیرہ غازیخان میں اسلام آباد کے بننے سے بھی پہلے ہوا کرتا تھا جو انتظامی افسران اعلیٰ کی آرام پرستی اور ذمہ داری سے بچنے کیلئے دہشت گردی کی آڑ میں بندکردیا گیا۔ جزوی طور پر میلہ اسپاں منعقد ۔ ہوا ہے۔ لاہور کا تو ذکرنہیں کرتے بادشاہان وقت اور ان کے قصیدے خواں کو ناگوار گزرتا ہے اگر اسلام آباد میں عرس میلے اور گھڑ سواری کے مقابلے ہو سکتے ہیں تو پھر ڈیرہ غازیخان کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔ اگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے بے بس ہوچکے ہیں۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو باور کرانا پڑے گا۔ صوبہ بن بھی جائے یہ گر د اسی طرح پڑی رہ جائیگی کیونکہ جن کو ہم نے رہبر بنا رکھا ہے وہی رہزن ہیں۔
نہ ادھر کی کہ ان اُدھر کی کر
یہ بتاکہ قافلے کیوں لٹے
مجھے رہزن سے غرض نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
چلو فورٹ منرو کی چیئر لفٹ یا اس کو مری ہلز بنانے کا چار ارب روپیہ تو واپس لاہور بھجوا دیا گیا ہے۔ مظفر گڑھ سے ڈیرہ غازیخان ان ڈول کیرج ڈبل روڈ کے فنڈز کو کیس پانامہ لیکس سیکنڈل میں عارضی طور پر بچ جانے کی خوشی میں مٹھائی کی تقسیم کی مد میں تو خرچ نہیں کر دیا گیا۔ اس معمولی سی رقم سے پنجاب میں ہی صرف مٹھائی بانٹی جا سکتی ہے تعیش کے اخراجات کیلئے تو سوچنا پڑے گا۔