پانامہ پیپرز:موقع گنوا دیا مشکل بنا ڈالی
اللہ انصاف نہ کرنے والے سے محبت نہیں کرتا(سورة آل عمران 57:3) اور ہم ہیں کہ انصاف انصاف کی دہائی دیتے مر جاتے ہیں لیکن جب بھی وقت قیام آنا ہے دھڑم سے سجدے میں ایسا گرتے ہیں کہ خدا کی پناہ ‘ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ مومن مشکل کو موقع میں بدل دیتا ہے اور ناامید انسان موقع کو اپنے لیے مشکل بنا لیتا ہے اور 20اپریل 2017کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ پانامہ پیپرز سے شروع ہونے والی لڑائی شاید سب کے لیے یکساں احتساب پر نہ ہی منتہج ہو سکے احتساب یکساں اور سب کا ایک قومی آواز ہے‘ اہل اقتدار اور اشرافیہ کو اس آواز پر کان ضرور دھرنا چاہیے 549صفحات پر مشتمل دستاویز کو پڑھتے پڑھتے یہ لگتا ہے کہ یہ پاکستان کے بارے میں شاید نہ ہی ہو کیونکہ اسکے 540صفحات کچھ کہہ رہے تھے اور 9صفحات کچھ اور ‘ جس شخص کا پانامہ میں اکاﺅنٹ نہیں تھا اس پر دشنام ترازی اور جسکی احتساب کرنے کی ذمہ داری تھی اس پر انگلی اٹھانے پر احتساب آڑے آ گیا ‘ انصاف کے ترازو میں گہیوں اور گھن اس انداز میں برابر پس رہے ہیں اور کئی سالوں سے ایسا ہی چل رہا ہے تب ہی تو بےنظیر اور آصف زرداری کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو تعصب سطح پر تیرتا نظر آیا اور حسین حقانی اور جنرل مشرف اور غرض یہ کہ ریمنڈ ڈیوس بھی قانون کے لمبے ہاتھوں سے کسی نہ کسی طرح بچ نکلے ‘ عام آدمی پکارتا ہے کہ اگر ججوں نے غور وعوض میں 57دن لگا دیے جبکہ سب کاغذات انکے سامنے تھے اور وہ بادشاہ بھی تھے تو عام سے افسران 60دنوں میں اس تہہ تک کیسے پہنچیں گے جن سوئس اکاﺅنٹوں تک ہمارے کسی زمانے کے حبری چیف جسٹس بھی نہیں پہنچ سکے وہ بھی کورٹ کے حکم کی عدولی پر وزیر اعظم کو رخصت کر کے اپنے تئیں خوش ہو گئے کہ چلو انصاف ہوتا نظر تو نہیں آیا لیکن لوگوں کے دلوں میں ڈر تو رہے گا کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ فیصلہ 2صفحات پر مبنی ہوتا کہ ججوں نے تمام کاغذات کا مطالعہ کر لیا ہے اور وہ ان سے متاثر نہیں ہیں اور ایک بھر پور تفتیش کے خواہاں ہیں اور اس تفتیش کے جواب آنے تک وہ اپنے احساساات اور مشاہات کو سنبھال کر رکھتے اور تفتیش اگر انکے مشاہدات کے مطابق انہیں تسلی نہ کروا سکتی تو وہ اپنے فیصلے محکوم علیہ اور قوم پر مسلط کر دیتے کیونکہ اب نہ تو تاریخی فیصلہ ہاتھ میں آیا ہے نہ ہی وزیر اعظم گھر گئے ہیں اور ابھی تفتیش کی تاریخ پر تاریخ کا انتظار کرنا بھی باقی ہے بہرحال 5ججوں کی مجموعی دانش کا جواب نہیں اور انہیں داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے بہر صورت ایک عقلمند فیصلہ کیا کہ آرٹیکل 10اے کی منشا کے مطابق وزیر اعظم صاحب کو گھر بھیجنے سے پہلے تفتیش اور طریقہ کار کے مطابق صفائی کا موقع دیا ہے جو خوش آئند ہے جسٹس کھوسہ نے پیرا 71میں خود ارشاد کیا ہے کہ یہ نہ چارج ہے اور نہ ہی ٹرائل تو ہم حق بجانب ہیں کہ یہ سوچیں کہ جب وہ پل آئے گا تو ہم دیکھیں گے سیاستدانوں سے اتنی ہی درخواست ہے کہ یہ ایک سیاسی معاملہ تھا ہے اور رہے گا ایسے مسئلے میں ججوں کو ملوث کرنا اور بعد میں ان کے فیصلوں پر پڑھے بغیر نکتہ چینی کرنا ایک سیاسی فعل ہو گاچاہیے تو یہ تھا کہ 2500کھاتہ داران اور تمام وہ لوگ جو بلاشرکت غیرے صاحب اقتدار رہے ہیں اور ان کے اثاثے ‘ انکی رہن سہن سے مطابقت نہیں رکھتے ایک غیر جانبدار احتساب کے نطام کے ذریعے پرکھے جاتے پارلیمان وزیر اعظم سمیت سب ارکان پارلیمنٹ کا احتساب کرتا ‘ اگر وزیر اعظم صاحب کسی غیر قانونی کام میں ملوث پائے جاتے تو انکے خلاف عدم اعتماد کے ذریعے انہیں عہدے سے ہٹایا جاتا ہم لیکن تجربہ کاری کے بہت شوقین ہیں جو کام ہمارا ہے وہ کرنا نہیں اور جو جس کا کام نہیں اسکے پاس جانا ہے کہ وہ ہمارا کام کرے اور تو اور جسٹس جواد خواجہ کو بھی خود ساختہ قید تنہائی سے آ کر بیان دینا پڑا ہے کہ پلاٹ ایک بھی غلط ہے اور یہاں تو دوسرے کی ڈیمانڈ کرتے بھی کوئی لحاظ نہیں برتا جاتا اور میرے ملک کا ایک عام سپاہی ‘ سکول کا معلم یا عام کلرک یا چوکیدار کام کرتے کرتے مر جاتا ہے لیکن سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی ‘ اور اہل اشرافیہ دو چار پلاٹ تو ایسے لے لیتے ہیں یا دے دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ ‘ کرپشن ہمارا ہی نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے اور اب تو پوری دنیا کا بھی ‘ برطانیہ میں ممبران پارلیمنٹ کا خرچہ کلیم کرنے کا سکینڈل ہوا ‘ انہوں نے سال میں اسے حل کر لیا ‘ سیاسی جماعتوں نے ایسے افراد کو سیاسی پراسس سے علیحدہ کر دیا جو داغدار تھے ہمارے ہاں جعلی ڈگری ہو یا دوہری شہریت ‘ قرضوں کی معافی ہویا مالی دیوالیہ پن ‘ امانت میں خیانت ہو یا اقربا پروری ‘ اخلاقی بے راہ روی ہو یا مذہبی جنونیت ‘ ہر بیمارے جانے دے استاد ڈیل اے کے مترادف ایسے ہر راستہ اور مرحلہ گزارتی جاتی ہے کہ نقاد حیران رہ جاتے ہیں اور اخلاقیات کے درس دینے والے حیران یافتہ ‘ وزیر اعظم صاحب کے پاس اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنے خلاف آنے والے ان مشاہدات کو سپریم کورٹ سے نظر ثانی کے لیے کہیں اور یہ فیصلہ وہ خود کریں کہ آیا نظر ثانی سے پہلے جے آئی ٹی میں انہیں شامل ہونا چاہیے یا نہیں اور اگر شامل ہونا ہے تو کس طرح ‘حسن اور حسین کو شامل تفتیش ضرور ہونا چاہیے لیکن نیب کو ان کے باقی ماندہ 2499افرد کو بھی قوم کے لیے اس بھل صفائی کا مناسب بندوبست کرنا چاہیے جس کی قوم سالوں سے متمنی ہے ایف بی آر ‘ چیف الیکشن کمشنر ‘ ایف آئی اے ‘ نیب ‘ پولیس اور پارلیمان کی آڈٹ اور اخلاقیات کا معیار جانچنے والی کمیٹیاں کسی حکم کی پابند تو نہیں ہیں اور نہ ہی کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کسی چمتکارکی ضر ورت ہے حکومت وقت اس معاملے میں آگے بڑھ کر راہنمائی کرے اور ایسا ماحول پیدا کرے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے قومی سوچ پیدا کی جا سکے اور احتساب سب کا اور سب کیلئے ہو اور اسکے لیے ضروری رضا مندی مشاورت کے ساتھ پیدا کی جائے تاکہ ملک سے صیح معنوں میں کرپشن کا خاتمہ ہو سکے 549صفحات پر مبنی صفحے جب تک انصاف مکمل نہ کریں تب تک ہمارے قوم کے پیسے لوٹنے والے افراد ان فیصلوں پر ہنستے رہیں گے کیونکہ انصاف وہ ہوتا ہے جہاں انصاف ہوتا نظر آئے یہاں تو ایسا لگ رہا ہے کہ ججوں نے فیصلہ ضرور کر لیا لیکن ابھی تفتیش باقی ہے اور یہی لمحہ فکریہ ہے آئیے ایک دفعہ پھر من حیث القوم اپنی قومی ذمہ داری کی طرف توجہ دیں کہ ریاست سے وفاداری اولین مقصد اور فریضہ ہے اور پاکستان جن مشکلات سے حاصل کیا ہے ملک ان قربانیوں کا ادراک اور اعتراف کا متمنی ہے قومی دھیرے دھیرے نئے الیکشن کی طرف بڑھ رہی ہے سول حکومت اور جمہوریت اعلی ‘ انتظام اور کرپشن سے پاک پالیسیوں کے ذریعے مضبوط کی جا سکتی ہے اس کسوٹی میں سے ان سب سے گزار دیے لیکن انصاف اور قانون کے زریں اصولوں سے انحراف ہمیں پھر اسی جگہ لا چھوڑے گا جہاں سے سبق شروع کیا تھا تاریخ یہ بتاتی ہے کہ صفائی کا ذمہ اٹھا کر آنے والے بھی کرپشن میں ملوث لوگوں کے مرہون منت پائے گئے اور کہیں ق لیگ ور کہیں این آر او میں چھپتے چھپاتے نکلتے پائے گئے اور آج کل کتابوں کی رائلٹی کا حساب ملین میں کر رہے ہیں اور کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنا بجلی کیوں پیدا نہیں کی ان سے کون پوچھے گا چلیے آئے جو بتا رہے ہیں ان سے کام چلائیں اور اپنے آپ کو مزید مضبوط کریں تاکہ باز پرس کا سلسلہ جاری رہے اوراس سے نظام اور پاکستان مستحکم ہو ۔