پانامہ کیس‘ فیصلے کے بعد
پانامہ لیکس کیس کے فیصلے کے بعد عوام کو سڑکوںپرلانے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں کے مقابلے میں حکمران جماعت کا جلسہ بھی دیکھنے میںشہرقائد میںگزشتہ ا توار 30 اپریل 2017ءکو پی ٹی آئی کا جلسہ تھا جس میں چیئرمین عمران خان نے خطاب کے دوران حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عزم کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ وزیراعظم میاں نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں اورازخود چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف کے مستعفی ہونے تک ان کی جماعت کا احتجاج جاری رہے گا۔پانامہ کیس فیصلے کے بعد حکومت مخالف عوام اورسیاسی جماعتوںنے حکمرانوں پرکیچڑ اچھالنا نت نئے طریقوں سے تنقید اور مز احمت کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ حکمران حاکم وقت ہیں حکومتی مشینری ان کے ہاتھ ہے اور سیاہ سفید کے مالک ہیں اورانہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو 10 ارب روپے کے الزام پرآڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انہیں وجوہات کی بناءپراتوار 30 اپریل کو پریس کلب کے باہر ایک مظاہرے کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے کارکنان الجھ پڑے اور مارپیٹ کے دوران ”گو عمران گو“ اور ”گو نواز گو“ کے نعرے لگتے رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شہر قائد کا بڑا خیال ہے ان کاکہنا کہ پانامہ کیس سے فارغ ہونے کے بعد کراچی آنے کا وعدہ کیا تھا، کراچی روشنیوں کا شہر تھا اور دبئی سے لوگ کراچی چھٹیاں منانے کے لئے آتے تھے لیکن اب اس شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں، کراچی کے شہریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لئے نکلا ہوں۔ جب تک لوگ اپنے حقوق کے لئے نہیں کھڑے ہوں گے ان حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا دوسری جانب تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کراچی ریجن کے صدر فروس شمیم نقوی کی نظر میں کراچی شہر کے مسائل کے حل کے لئے ایک ایماندار اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی صورت میں ہمیں ملی ہے۔ جب تک آپ کے حکمران ایماندار نہیں ہونگے آپ کا پیسہ ہمیشہ کرپشن کی نذر ہوتا رہے گا۔ اگر حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا اور کراچی کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لی تو کراچی کے عوام پھر سے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں سڑکوں پر نکلیں گے اور حکمرانوں کے ایوانوں کا گھیراو¿ کریں گے۔پیپلز پارٹی بتائے کہ کراچی اور سندھ کی ترقی کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔یہ پیسہ چوری کر کے دبئی منتقل کر رہے ہیں ۔پانامہ کیس کا فیصلہ یہ بھی فیصلہ کرے گاکہ ملک کس طرح چلے گا۔ کراچی کے لوگ مطالبہ کریں نواز شریف استعفیٰ دیں کیونکہ سپریم کورٹ نے جھوٹا قرار دیا ہے اور ایک جھوٹا اور کرپٹ ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا ہے۔،جب تک اس ملک میں کرپشن کا گا ڈ فادر نہیں جاتا تو ادارے مضبوط نہیں ہوں گے ۔ تمہیں قوم کواور ہمیں جواب دینا ہوگا۔قوم اس کا جواب مانگے گی ہم سب جواب مانگیں گے۔ عمران نے کہا کہ نوازشریف کا وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جواز ختم ہوگیا، جب پانامہ کا انکشاف ہوا تھا اسی دن انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا، نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کو کہا تھا کہ تحقیقات تک استعفیٰ دے دیں لیکن خود کرسی سے چپکے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا10 ارب تو ابتدائی پیش کش تھی، آفر لانے والے کا کہنا تھا کہ پیش کش 10 ارب روپے سے بڑھ بھی سکتی ہے، مجھے خوشی ہوئی ن لیگ نے مجھے عدالت لے جانے کی بات کی۔ جس دن عدالت میں بلایا گیا تو 10 ارب روپے کی پیش کش کرنے والے کے لئے تحفظ کا مطالبہ کروں گا اور دبئی سے جس کے ذریعے پیش کش کی گئی اس کا نام بھی بتاﺅں گا۔ نوازشریف کا ابھی کوئی اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا کہ وہ وزیراعظم رہیں ۔ اب نواز شریف نے عزت کی بجائے پیسہ بچانے کا فیصلہ کیا ہے۔آج ہر بچے بچے کی زبان پر گو نواز گو کا نعرہ ہے۔ کسی بھی جمہوریت کے اندر کسی ملک کے سربراہ کو اگر عدلیہ جھوٹا کہہ دے تو اسے ملک کی سربراہی چھوڑ دینی چاہئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے واضح ہو چکا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں۔نواز شریف کے لئے اب کوئی جواز نہیں کہ اب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر رہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب جے آ¿ئی ٹی طے کرے گی کہ پاکستان ایک عظیم اور انصاف کرنے والا ملک ہے یا چوروں اور لٹیروں کا ملک ہے۔پوری قوم کو کہتا ہوں کہ وہ گونواز گو کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ،نوجوان اور خواتین گو نواز گو کہنے کے لئے تیار ہیں۔نواز شریف کی رخصتی تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
پانامہ کیس فیصلے کے بعد حکمران بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور گزشتہ دنوںوزیراعظم کے دست راست راﺅ تحسین اورفاطمی کو برطرف کردیا گیا۔ اسی طرح عمران خان کی جانب سے 10 ارب روپے کی پیش کش کے الزام میں حکمران عتاب کا شکار ہیں‘ اس رسہ کشی میں سراسر نقصان عوام کا ہے ‘ ملک و قوم کا ہے‘ ترقی کا پہیہ جام ہونے کاخدشہ ہے‘ ملکی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ایسے حالات میں کیا ہی اچھا ہو افہام تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے‘ سڑکوںپرعوام کو لانے کی بجائے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ آئندہ سال انتخابات کا سال ہے اور یقینی طورپر موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد میدان چھوڑے گی اور پھرایک نئے عزم سے جیسے عوام چاہیں گے حکمرانی کا حق ملے گا۔