سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم اور تاریخ سے تھوڑی سمجھ بوجھ ہونے کے ناطے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دشمن آپ کے مفادات کو ہدف تو بنا سکتا ہے مگر زیر اس وقت نہیں کر سکتا جب تک آپ اپنے مفادات سے غافل نہ ہوں۔ پاکستان کے موجودہ معروضی حالات آج اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان وجوہات کو تلاش کیا جائے کہ جن کی بنا پر آج ہم زندہ قوموں کی صف میں آخری نمبر پر کھڑے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے نوائے وقت ہی کے صفحات پر اپنے ایک مضمون میں نیشنل ازم یعنی قوم پرستی پر لکھا تھا کہ نیشنل ازم یا قوم پرستی کو پروان چڑھائے بغیر آج کی دنیا میں اپنی جغرافیائی حیثیت برقرار رکھنا فی زمانہ بہت مشکل عمل ہے۔ میں یہاں دنیا کے چند ممالک کا ذکر کروں گا جنہوں نے نیشنل ازم کو فروغ دے کر موجودہ کمرشل دور کے تقاضوں کو پورا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ قومیں آج دنیا کی سیاست اور معیشت کو ’’لِیڈ‘‘ کر رہی ہیں۔ اٹلی، سوئٹزرلینڈ، انگلینڈ، ترکی وہ ممالک ہیں جن میںمیں پورا سال پرائیویٹ مکانوں پر، دوکانوں پر قومی پرچم لہراتے رہتے ہیں حتیٰ کہ جھیل میں ان کی اپنی پارک کی ہوئی ’’کشتی‘‘ پر بھی آپ کو قومی پرچم لہراتا نظر آئے گا۔ جب کہ بھارت جو سینکڑوں مختلف انواع کی زبانوں اور درجنوں مذہبوں کی موجودگی میں بھی صرف نیشنل ازم کو فروغ دے کر قائم و دائم ہے۔ خود امریکہ اور کینیڈا جہاں کی 100فیصد آبادی امیگرینٹس پر مشتمل ہے نے نیشنل ازم اور قومی پرچم کی تشہیر کے ذریعے خود کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ آج دنیا بھر میں ایک بچہ بھی ان ممالک کے پرچم دیکھ کر کہہ دیتا ہے کہ یہ امریکہ یا کینیڈا کا جھنڈا ہے۔ مذکورہ ممالک کے لوگ جب سیاحت کے لیے اپنے ملکوں سے باہر نکلتے ہیں تو انہوں نے اپنے قومی پرچم کے نشان والی ٹی شرٹس پہنی ہوتی ہیں ان کے کندھوں سے لٹکے سفری بیگ پر ان کے قومی پرچم کا مخصوص نشان نظر آتا ہے حتی کہ گھروں اور ہوٹلوں میں چائے یا کافی پیتے ہوئے پیالیوں پر بھی قومی پرچم کندہ ہوتا ہے جو ان کو یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں انہیں اس سے پیار کرنا ہے درجہ بالا ممالک میں اور دنیا بھر میں کہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ کوئی شہری منتخب یا غیر منتخب نمائندہ اراکین عدلیہ یا افواج ہر قسم کا میڈیا اور دانشور ملکی سلامتی سے متعلق گفتگو کر سکے یا اسے ایشو بنا کر پبلک میںا چھالے۔
حالانکہ یہ بات روزِ روشنی کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مارشل لاء لگتے چلے آئے ہیں اور روس اور چین میں تو جمہوریت نام کی کوئی چیز سِرے سے موجود ہی نہیں مگر وہ دنیا کو لیڈ کرنے والی پہلی پانچ اقوام میں شامل ہیں۔ ہمارے بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ خود امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی مکمل طور پر ’’پینٹاگون‘‘ کے طابع ہیں حتیٰ کہ امریکن کانگریس اور سینیٹ کے منتخب اراکین امریکن افواج، سی آئی اے ، ڈرگ انفورسیمنٹ، لااینڈر آرڈر انفورسیمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عہدیدار ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان سیاست دان، دانشور، مفکر اور نام نہاد میڈیا کے کنگ میکرز یہ کیسے اخذ کر لیتے ہیں کہ ہم پاکستان میں پاک فوج کے ایک مستقل کردار کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟ دراصل ہمارے کرپٹ سیاست دان جو عوامی نمائندے کم تجارتی نمائندے زیادہ ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے دورِ اقتدار میں سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بیوروکریسی اور عدلیہ کے اندر ایسی بھرتیاں کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو بعدازاں ان کے سفارشی سیاست دانوں کے مالی مفادات کی نگہداشت کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں بادشاہ سلامت یا امیرالمومنین بننے کی خواہش کہیں نہ کہیں پنہاں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملکی معاملات میں فوج کے مستقل کردار کو روکنے کے لیے وہ ایسے نام نہاد جمہوری دانشور، اینکر پرسن اور تجزیہ نگار اپنے مفادات کے لیے اپنے اردگرد جمع کر لیتے ہیں اور پھر یہ صاحبان اپنے آقائوں کی خواہش اور فرمائش کے مطابق سُر اور راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں پچھلے 10 سال سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ ایک مخصوص میڈیا گروپ پاک فوج اس کے ذیلی اداروں اور قومی سلامتی کے دیگر محکموں کو بدنام کرنے کے لیے ہزاروں جتن کر رہا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں بھارت اور متحدہ عرب امارات کی ملی بھگت سے علیحدگی پسندی کی نام نہاد تحریکوں کو نہ صرف جنم دے رہے ہیں بلکہ ان کی مالی اورتیکینکی امداد بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ہی نہیں امریکہ میں بھی یقینا چند ایسے نوجوانوں کو اکٹھا کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ پاکستان کے ان موجودہ حالات جو کہ عالمی دوستیاں نبھانے کی نذر ہو کر آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ گزشتہ 12سال سے مملکت عزیز پاکستان اندرونی خلفشار، بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کا شکار ہے جس کی قیمت ہم نے 80ہزار سول و عسکری جانوں کا نذرانہ اور 2لاکھ سے زائد معذور اور 120ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ کروا لینے کی شکل میں ادا کی ہے اور جس ملک کے اندرونی حالات ایسے ہوں عدلیہ کوئی فیصلہ کرنے سے ڈرتی ہو اور دہشت گرد پہلی نہیں تو دوسری پیشی پر رہا ہو جاتے ہوں، وہاں ملکی سلامتی کے اداروں کو انتہائی خطرناک اور مطلوب مجرمان کو پوچھ گچھ کے لیے کیا اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے؟ کیا دوبئی، سعودی عرب، جرمن، فرانس، انگلینڈ، امریکہ، اسرائیل اور بھارت میں دہشت گردوں کو سرِعام اور کھلے بندوں دندناتے پھرنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ان مذکورہ ممالک میں آج بھی ملکی سلامتی کے نام لاکھوں لوگوں کو حساس اداروں کی تحویل میں رکھا گیا ہے؟
جبکہ وطن عزیز میں ایک خاص میڈیا گروپ پاکستان کے قومی پرچم کی بجائے امن کی آشا کا پرچم بلند کیے شکیل آفریدی جیسے چند این جی اوز کے لوگ جن کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے دیارِ غیر سے فنڈنگ ہوتی ہے پاکستان کے لیے جگ ہنسائی کا موجب بنے۔ کیا پاک افواج اور آئی ایس آئی حکومتِ پاکستان کے توسط سے کچھ ایساانتظام کر سکتی ہے کہ وہ ایک سٹیڈیم میں ان 80ہزار سول و عسکری شہدا کے وارثوں کے سامنے ان ڈھائی سو گمشدہ افراد کے لواحقین کو مذاکرے کے لیے پیش کریں۔ جہاں ان گمشدہ افراد کے لواحقین سے پوچھا جا سکے کہ ان 80ہزار شہدا کے بیٹے، بیٹیوں، بیوگان، ماں باپ، بہن بھائی جو کہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں کی یادیں لے کر کیسے جی رہے ہیں؟ کئی شہدا کے بچے فیس نہ ہونے کی وجہ سے سکولوں سے فارغ کیے جا چکے ہیں اور بیشتر شہدا کے لواحقین حالات کے ستم سے مجبور ہو کر خودکشیاں کر چکے ہیں۔ یقینا وہ مخصوص میڈیا گروپ اور این جی اوز جو دشمن کی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان زیرِ تحویل ملزموں کو سقم زدہ قانون کے حوالے کر دیا جائے تاکہ یہ پھر اپنے آقائوں کے ادھورے مشن کو پایۂ تکمیل تک خدانخواستہ پہنچا سکیں۔ میں امن کی آشا کے مالکان اور گمشدہ افراد کے نام پر این جی اوز بنا کر سیاست چمکانے والوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ جس دن 80ہزار شہدا اور لاکھوں معذوروں کے لواحقین نے اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ کا گھیرائو کیا تو صاحبِ اقتدار طبقہ اور یہ مخصوص میڈیا گروپ اس کے حواری اور ملازمین ان کے غضب سے بچ نہ پائیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38