امن و امان کی صورتحال شفاف الیکشن میں بڑی رکاوٹ ہے : چیف الیکشن کمشنر
اسلام آباد + لاہور (نوائے وقت نیوز + خبر نگار + ایجنسیاں) چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے واضح کیا ہے کہ امن و امان کی بہتر صورتحال کے بغیر شفاف انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ قیام امن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے شفاف انتخابات کو سازگار پرامن فضا سے مشروط کرتے ہوئے کہا شفاف انتخابات کی ر اہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امن و امان کی صورتحال ہے، حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے، عام انتخابات کے لئے تیاری مکمل کر چکے ہیں، منصفانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ہیں حکومت امن و امان کے بارے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے الیکشن کمشن کے ہیڈکوارٹر میں کمشن کے غیر معمولی اجلاس کے دوران کیا۔ الیکشن کمشن کے اس اجلاس میں پرامن اور محفوظ انتخابات کیلئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ م¶ثر اقدامات میں پیشرفت نہ ہونے پر الیکشن کمشن نے ایک بار پھر تحفظات کا اظہار کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتخابات کرانے کے لئے پرعزم ہیں تاہم امن و امان کی خراب صورت حال پر تشویش ہے، حکومت امن و امان کی ذمہ دار ہے۔ سفارشات بھیجی تھیں ہم شفاف انتخابات کی تیاری مکمل کر چکے ہیں، تمام فریقین کے ساتھ مل کر اس بارے میں لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ ہم انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں تاہم انتخابات کے پرامن ماحول میں انعقاد کیلئے حکومت کو امن و امان کے حوالے سے ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔ امن و امان کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کی صورتحال کی بہتری کیلئے اقدامات کریں۔ حکومت ہمیں امن و امان دے ہم شفاف انتخابات دیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انشاءاللہ شفاف انتخابات ہوں گے اور ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ خواہش ہے کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ امن کے بغیر شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ ہم شفاف انتخابات کرانے کیلئے تیار ہیں۔ فوج کو کوئیک رسپانس فورس کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ کوئیک رسپانس فورس میں 20 سے 30 اہلکار ہونگے۔ کراچی اور کوئٹہ میں پاک فوج سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خدمات حاصل کرینگے۔ حساس ترین پولنگ سٹیشنز پر سات اور حساس پر پانچ فوجی اہلکار تعینات ہونگے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 10 مئی کی رات سکیورٹی تعینات کریں گی۔ بیلٹ پیپر کی چھپائی اور ترسیل سے متعلق امور اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے سے متعلق امور بھی زیر غور آئے۔ اجلاس کے آغاز میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ غیر جانبدارانہ انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمشن کی ہے۔ امن و امان کا قیام قانون نافذ کرنے و الے اداروں کا کام ہے اور اگر امن و امان قائم ہو گیا تو شفاف انتخابات ہوں گے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن اشتیاق احمد نے کہا ہے کہ پولنگ سکیم فائنل کر دی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ کے تحریری حکم کے منتظر ہیں۔ الیکشن کے روز موبائل فونز بند نہیں ہوں گے۔ امن و امان سے متعلق وسیع لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پولنگ سٹیشنز بنائیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ووٹرز 6 مئی کی صبح سے 8300 پر شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر کے اپنے پولنگ سٹیشن کی معلومات لے سکتے ہیں۔ الیکشن میں فوج اور ایئرفورس ہماری مدد کر رہی ہے۔ حکومت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کیلئے مناسب انتظامات کرے۔ الیکشن کمشن انتخابات کرانے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ پولنگ سکیم سے متعلق شکایات آج تک حل کرلی جائیں گی۔ تمام مشکلات کے باوجود ہم منزل کے قریب ہیں۔ پولنگ سٹیشنز پر فوج، رینجرز، نیم فوجی دستوں پولیس سکا¶ٹس کی تعیناتی کا فیصلہ صوبائی حکومتیں کریں گی۔ ترجمان الیکشن کمشن نے کہا کہ الیکشن کمشن نے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کی خدمات لینے سے انکار کر دیا ہے۔ امن و امان کا قیام الیکشن کمشن نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی دمہ داری ہے۔ نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل صوبائی حکومتوں کی معاونت کرے۔ وزارت داخلہ نے الیکشن کمشن کو نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا کہ سکیورٹی فراہم کرنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تمام سیاسی قائدین پولنگ سٹیشنوں کی سکیورٹی یقینی بنائیں، تمام تر مشکلات کے باوجود انتخابات کی منزل کے قریب ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق پولنگ سٹیشن بننے چاہئیں۔ سکیورٹی فراہم کرنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات کیلئے پولنگ سکیم سے متعلق شکایات کل تک دور کر لی جائیں گی۔ الیکشن کمشن انتخابات کے انعقاد کیلئے تیار ہے۔ فوج بھی مدد کر رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سکیورٹی پرنٹنگ پریس میں بلوچستان کیلئے بیلٹ پیپرز کی چھپائی مکمل کر لی گئی ہے کراچی سے بلوچستان بیلٹ پیپرز فوج کی نگرانی میں سی ون تھرٹی کے ذریعے بھجوائے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمشن نے 12,716 پولنگ سٹیشنوں کو انتہائی حساس اور 19644 کو حساس قرار دے دیا ہے۔ سب سے زیادہ انتہائی حساس اور حساس پولنگ سٹیشن پنجاب میں ہیں۔ الیکشن کمشن کے مطابق پولنگ سٹیشنوں کی تعداد 69875 ہے جن میں سے 37515 پولنگ سٹیشن کو ”خطرے سے پاک“ قرار دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں 550 پولنگ سٹیشنوں میں سے 520 خطرے سے پاک، 18 انتہائی حساس اور 12 حساس ہیں۔ پنجاب میں 40078 پولنگ سٹیشنوں میں سے 4463 انتہائی حساس، 8439 حساس اور 27178 خطرے سے پاک پولنگ سٹیشن ہیں۔ سندھ میں 15000 پولنگ سٹیشنوں میں سے 4176 انتہائی حساس، 5436 حساس اور 5388 خطروں سے پاک، خیبر پی کے میں 9300 پولنگ سٹیشنوں میں سے 2142 بے حد حساس، 3405 حساس اور 3753 خطروں سے پاک، بلوچستان میں 3678 پولنگ سٹیشنوں میں سے 1783 بے حد حساس، 1235 حساس اور 660 خطروں سے پاک، فاٹا میں 1269 پولنگ سٹیشنوں میں سے 134 بے حد حساس، 1117 حساس اور صرف 18 خطروں سے پاک قرار دئیے گئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق الیکشن کمشن نے عام انتخابات کے موقع پر صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولنگ مراکز پر ویڈیو ریکارڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی مدد سے ضابطہ اخلاق اور قانون کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کی جائے گی۔ محکمہ داخلہ کے صوبائی مشیر شرف الدین میمن کا کہنا ہے کہ حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ کیمروں کے ذریعے انتخابی عمل کی مرکزی نگرانی کی جائے۔ اس ریکارڈنگ کی مدد سے یہ پتہ لگانا آسان ہو گا کہ کہاں ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے یا جعلی و وٹ تو نہیں ڈالے جا رہے۔ صوبائی چیف الیکشن کمشنر ایس ایم قادری کا کہنا ہے کہ جہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں کئے جا سکتے۔ وہاں ویڈیو کیمروں کی مدد سے ریکارڈنگ کی جائے گی۔ اس کے علاوہ مانیٹرنگ ٹیمیں بھی ان پولنگ سٹیشنوں کی ریکارڈنگ کریں گی۔ یہ کیمرے پولنگ بوتھ پر نصب نہیں ہوں گے اور صرف بیرونی حصے کی نگرانی کریں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس نوعیت کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور اس میں کون ملوث ہیں۔ دریں اثناءانتخابی عمل کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ستر ہزار فوجی اہلکاروں کی تعیناتی شروع ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں فوجی دستوں کی تعیناتی آج صبح تک مکمل ہو جائے گی اور صوبہ سندھ میں تعیناتی کا عمل آج سے شروع ہو رہا ہے۔ خیبر پی کے میں تعیناتی کیلئے فوجی دستوں کی نقل و حرکت کا آغاز ہو گیا ہے جب کہ پنجاب میں آج سے متعلقہ مقامات کی جانب دستوں کی روانگی شروع ہو گی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے صحافیوں کے ایک گروپ کو الیکشن کے موقع پر سکیورٹی پلان کی تفصیلات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول انتظامیہ کے طلب کرنے پر معاونت کیلئے متعین کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مینڈیٹ یہ ہے کہ انتخابی عمل اور انتخابات کے دوران سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھا جائے۔ الیکشن کے حوالے سے فوج کو تین اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ امن و امان اور سکیورٹی کے حوالے سے سول انتظامیہ کی مدد کی جائے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور چھاپہ خانوں کی سکیورٹی دوسری اہم ذمہ داری ہے جبکہ بیلٹ پیپرز کی صوبوں اور متعلقہ مقامات تک ترسیل تیسری اہم ذمہ داری ہے۔ فوج کی نگرانی میں بیلٹ پیپروں کی چھپائی 19 اپریل سے جاری ہے۔ چھپائی کا عمل اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے چار پرنٹنگ پریسوں میں جاری ہے۔ بیلٹ پیرز کی فضائی اور زمینی، دونوں راستوں سے ترسیل ہو رہی ہے۔ اس کام کیلئے سی ون تھرٹی جہازوں کے علاوہ بلوچستان میں ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی پاک فوج کی ہو گی، بیلٹ پیپرز کی تعداد اور درستگی کو الیکشن کمشن کا عملہ یقینی بنائے گا۔ ہر جگہ فوج مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ میں رہے گی۔ پولیس، رینجرز اور دیگر ادارے پولنگ سٹیشنون پر متعین ہوں گے، فوجی دستے سریع الحرکت فورس کے طور پر قریب ہی موجود رہیں گے اور طلب کرنے پر مطلوبہ مقام پر پہنچیں گے۔ فوج کی تعیناتی کے علاقوں کو سیکٹرز اور سب سیکٹرز میں بانٹا گیا ہے۔ سریع الحرکت فورس کو پاک فوج کے 50 ہیلی کاپٹروں کی خدمات بھی حاصل ہوں گی۔ فاٹا کے سکیورٹی پلان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہاں پہلے سے فوج موجود ہے۔ خطرے کے حساب سے فوجی دستوں کی تعیناتی کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹیں بھی مدنظر رکھی گئی ہیں۔ آئندہ دنوں میں مزید قابل ذکر انٹیلی جنس رپورٹیں آئیں تو سکیورٹی پلان میں ان رپورٹوں کے مطابق ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ فوج سول انتظامیہ کے ماتحت ہو گی تو انہوں نے کہا کہ سکیورٹی پلان تو سول انتظامیہ کاہی بنایا ہوا ہے۔ فوج انتخابی عمل کے مکمل ہونے تک موجود رہے گی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ گیارہ مئی کو پاک افغان بارڈر سیل کرنے کے حوالے سے افغانستان میں ایساف سے کوئی رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سوال ترجمان دفتر خارجہ سے کیا جائے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا فوج کراچی میں کارروائی کرے گی تو جواب ملا کہ کراچی میں پولیس اور رینجرز پہلے سے ٹارگٹڈ آپریشن کر رہے ہین۔ الیکشن کی سکیورٹی کے ضمن میں مزید کارروائی کرنا پڑی تو کی جائے گی۔ ڈی جی سے سوال کیا گیا کہ کیا آئی ایس آئی الیکشن کو مانیٹر کر رہی ہے تو انہوں نے کہا الیکشن کمشن، الیکشن کی نگرانی کر رہا ہے۔ فاٹا کے بے گھر لوگوں کو ان کے کیمپوں میں ووٹ ڈالنے کی سہولت دی جائے گی جس کی سکیورٹی بھی پاک فوج کی ذمہ داری ہو گی۔ گذشتہ انتخابات میں پنتیس ہزار فوجی تعینات کئے گئے تھے اس طرح اس مرتبہ الیکشن کے دوران سکیورٹی فرائض سرانجام دینے والے فوجیوں کی تعداد دوگنا ہو گئی ہے۔ پاک فوج نے انتخابات کے دوران درپیش خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے جائزہ کے مطابق فوجی تعینات کئے جانے کا ایک جامع منصوبہ بنایا ہے، بدلتی صورتحال کے ساتھ طے شدہ پلان میں بھی تبدیلیاں کی جاتی رہیں گی۔ انتخابات کے حوالے سے فرائض سرانجام دینے والے دستوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو پیشرفت سے آگاہ رکھنے کے لئے خصوصی سیل بھی بنایا جائے گا۔ فوجی دستے امن و امان اور سکیورٹی یقینی بنانے کے لئے تعینات کئے جارہے ہیں، اس لئے کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے پوری طرح سے نمٹا جائے گا اور اس کے لئے ضرورت کے مطابق فوری ضروری اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ خیبر پی کے کی حکومت نے انتخابات کے دوران شدت پسندی روکنے کے لئے قبائلی علاقوں کے ساتھ ملنے والی صوبے کی سرحد پر فرنٹیئر کانسٹیبلری تعینات کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے افغان پناہ گزینوں کو اپنے علاقوں اور کیمپوں تک محدود رہنے کی لئے کہا ہے۔ یہ فیصلہ پشاور میں پرامن انتخابات منعقد ک رنے کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلا س میں کیا گیا ہے۔ نگران وزیر اطلاعات مسرت قدیم نے بی بی سی کو بتایا کہ شہری علاقوں میں تشدد کے بیشتر واقعات کے تانے بانے قبائلی علاقوں سے جا ملتے ہیں اس لئے نگران حکومت نے فیصلہ کیا کہ اگرچہ فاٹا اور خیبر پی کے کے درمیان سرحد کو طوالت اور دشوار گذار علاقے کی وجہ سے مکمل طو ر پر سیل نہیں کیا جا سکتا تاہم اس پر ایف سی کی بھاری نفری ضرور تعینات کی جائے گی۔ نگران صوبائی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کی نقل و حرکت کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نگران وزیر اطلاعات نے بتایا کہ سکیورٹی اہلکاروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے کاغذات کی ضرور جانچ پڑتال کریں۔ محکمہ داخلہ خیبر پی کے نے آئندہ عام انتخابات کے دوران دس سے بارہ مئی تک پاک افغان بارڈر سیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بارڈر کراس کرنےوالے افغان مہاجرین کو گرفتار کر لیا جائےگا۔ کمشنر پشاور صاحبزادہ انیس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ عام انتخابات 2013ءکے دوران پاک افغان بارڈر دس اور گیارہ مئی کو بند رہے گی۔ افغان مہاجرین اپنے کیمپوں تک محدود رہیں۔ بارڈر کراس کرنیوالے مہاجرین کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ آئی ڈی پیز کیلئے دو جگہ پولنگ سٹیشن قائم کئے جائینگے۔ محکمہ داخلہ خیبر پی کے نے 11 مئی کو پاک افغان طورخم بارڈر سیل کرنے کی ہدایت کردی۔ محکمہ داخلہ خیبر پی کے نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا کو ہدایت کی کہ 10، 11 اور 12 کو افغان مہاجرین کیمپوں تک محدود رہیں۔ شہر آنیوالے افغان مہاجرین کو گرفتار کیا جائیگا۔ انتخابات کے روز امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے بارڈر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔