جمعة المبارک ‘ 22 جمادی الثانی 1434ھ ‘ 3 مئی 2013 ئ
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی ریلی میں فیروزپور روڈ پر ٹریفک جام ہونے سے میاں شہباز شریف گاڑی سے اتر کر رکشہ میں سوار ہو گئے۔ کاش یہ سفر میاں شہباز شریف کے ظاہر کے ساتھ ساتھ انکے باطنی عروج کا سفر بھی ثابت ہو اور وہ خود محسوس کریں کہ عوام اس گرمی میں کس طرح گھنٹوں اپنے امیدواروں کیساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہیں۔ حالانکہ عوام جانتے ہیںکہ کامیابی کے بعد 99 فیصد کامیاب امیدوار رکشاﺅں سے نکل کا پجارو میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کا دماغ بھی زمین سے اٹھ کر عرش پر جا پہنچتا ہے۔ اور جن لوگوں نے ان کو ایوان اقتدار تک پہنچایا ہوتا ہے یہ لیڈران کرام ان کو بھول جاتے ہیں۔ ان سے کئے وعدے بھول جاتے ہیں اور وہ یونہی سڑکوں پر خوار پھرتے ہیں۔ عوام تو انہیں رکشہ میں دیکھ کر خوشی سے گا رہے ہوں گے....سانوں وی لے چل نال وے باﺅ سوہنے ”رکشے“ والیامن لئی تیری بن گئی تیری ہو گئی لال و لال وے باﺅ سوہنے ”رکشے“ والیااس رکشہ والے کی طرح میاں صاحب کے ووٹروں کے چہرے بھی خوشی سے چمک رہے تھے جب ان کا لیڈر گاڑی پھنس جانے سے تنگ آ کر عوامی سواری میں بیٹھ گیا تھا۔ اب میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان لوگوں کی توقعات پر پورا اتریں۔ جو انکی ہر ادا پر مر مٹتے ہیں۔٭....٭....٭....٭ملتان کو تعلیم کا گڑھ بنانے کا دعویٰ کرنے والے امیدوار کا جلسے کے دوران سٹیج گر گیا۔ لگتا ہے اب امیدواروں کی جزا و سزا کا عمل الیکشن مہم میں ہی شروع ہو گیا ہے۔ اسی لئے تو ایسا دعویٰ کرنے کا سٹیج بھی اس غلط بیانی کا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ ملتان کے تو گرما، گدا، گور یعنی گرمی، فقیر اور قبرستان پہلے ہی مشہور ہیں اب اگر کوئی امیدوار اس شہر کو علم کا مرکز بنانے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ایک اچھا اور اچھوتا خیال تو ہے مگر خدارا یہ بھی تو دیکھیں کہ ملتان ویسے ہی مسائل کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ کیا ان سے عوام کو نجات مل گئی ہے۔ عوام تو مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور لوڈشیڈنگ سے جس قدر بے زار ہیں ان کے لئے تو زندگی ہی دشوار ہو گئی ہے۔ ا سلئے خدارا امیدواران سے ایسے وعدے نہ کریں‘ جن پر عمل کرنا مشکل ہو‘ کسی نے جواب میں کہا ہے....کرے نہ پل کوئی مسمار میرےابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرےکل کامیاب ہو کر آپ نے انہی عوام کے پاس آنا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان کا اعتماد بحال رکھا جائے۔ تعلیم کسی بھی کامیاب اور فعال معاشرے کا حسن ہے۔ اسکے بغیر نہ تو انسان آگے بڑھ سکتا ہے نہ ملک اور نہ ہی معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ تعلیم کو عام کرنا بہت بڑی ضرورت ہے‘ نیکی ہے۔ اسے انتخابی نعرہ نہ بنایا جائے۔ اس پر سیاست نہ کی جائے تو بہتر ہے۔٭....٭....٭....٭ جناح ہسپتال میں داخل زخمی بھارتی جاسوس سربجیت گزشتہ روز دم توڑ گیا۔ حکومت پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنا پر 3روز قبل اسکے اہلخانہ کو پاکستان آنے کی اجازت دی تھی جس پر اسکے گھر والوں نے ہسپتال میں اسکی عیادت کے علاوہ گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال کی یاترا کی جہاں اسکی صحت یابی کیلئے دعا بھی کی مگر موت سے کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ جہاں لکھی ہے وہاں مقررہ وقت پر آجاتی ہے۔ 1989 میں جب آنجہانی سربجیت سنگھ نے بم دھماکے کیے تو اس سے کئی بے گناہ پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اسکی گرفتاری کے بعد عدالت نے اسے سزائے موت کا حکم دیا مگر اس پر عمل نہیں ہوسکا اب ساتھی قیدیوں کے حملے نے سربجیت کو ایک مجرم سے بھارت میں مظلوم ہیرو بنا ڈالا ہے۔ پولیس اور جیل انتظامیہ کی غفلت نے پاکستان کا بھارت کو دہشت گردوں میں شامل کرنے کا جیتا ہوا کیس ہروا ڈالا ہے۔ بہرحال اسے مکافات عمل کہیے یا کچھ اور اسکی موت قید میں ہی لکھی گئی تھی۔ آج اگر سربجیت سنگھ کے اہلخانہ صدمے سے ملول ہوکر پاکستان اور حکومت پنجاب کو اسکی موت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں توجب سربجیت نے بم دھماکے کیے‘ وہ ان والدین اور عزیز و اقارب کے دکھوں کو بھی شمار کرلیں جن کے پیارے ان دھماکوں کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ تو انسانیت کیخلاف بدترین جرم تھا جس کا سربجیت مرتکب ہوا۔ موت کا دکھ تو سب کو یکساںہوتا ہے۔ سربجیت پر تو صرف اسکے گھر والے روہے ہیں مگر اسکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ 17افراد کے جنازوںپر آج بھی 17گھر رو رہے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم کسی کی جان لینے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ اگر کبھی یہ وقت ہم پر آیا تو کیا ہوگا کیسا لگے گا ، سچ کہتے ہیں.... جیسی کرنی ویسی بھرنی نہیں مانتا تو کرکے دیکھ جنت بھی ہے دوزخ بھی نہیں مانتا تو مر کے دیکھ