دارالعلوم حقانیہ میں دہشت گردی

Mar 03, 2025

وزیر احمد جوگیزئی

ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی افغانستان میں روسیوں کی آمد اور افغانیوں کی پاکستان ہجرت نے بہت سی تنظیموں کو جنم دیا جن کی باقیات آج کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور یہ سن ان ہی باقیات کا شاخسانہ ہے جسے ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔کاش پاکستانی قیادت افغان مسئلہ کو اسی وقت امریکہ کے کہنے پر اتنی طوالت او رسہولت نہ دیتی تو ہمیںیہ دن نہ دیکھنے نہ پڑتے!! کبھی پشاور سکول اور کبھی دارالعلوم حقانیہ میں دھماکے دیکھ رہے ہیں۔ ہر جگہ وحشت کا راج ہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری پالیسی سے افغانی خوش ہیں نہ ہم مطمعن۔ ہر طرف بدگمانی کا الاؤ روشن ہے۔ ہم نے بہت سی قربانیاں دے کر لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ، اس کے باوجود افغانیوں کو پاکستانیوں پر اعتماد ہے نہ پاکستانی ان پر اعتماد کررہے ہیں۔ ان حالات میں معاملہ فہمم اور دوراندیش لیڈرشپ کی ضرورت تھی جو بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی قوم کو میسر نہیں؟ لمحہ موجود میں سیاسی قائدین اسطرح کی بصیرت سے کلی محروم ہیں۔ اگر بصیرت ہوتی تو ہم اپنے ہمسایہ ممالک ‘ایران‘ ہندوستان اور افغانستان سے بگاڑ کر جی نہ رہے ہوتے۔ ہمارا قریبی ملک چین ہے جس سے ہماری پکی دوستی ہے مگر باقی ممالک سے ہمارے تعلقات مثالی نہیں۔ ایران میں ہمارے لئے بہت کچھ ہے مگر ہم اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ایران سے گیس لے کر ہم اپنی صنعتوں کو بحال کرسکتے تھے لیکن ہم ایران سے کچھ سیکھ سکے نہ اس پوزیشن میں ہیں مگر ہم ایران سے اعتماد تو لے سکتے ہیں۔ افغانستان سے چولی دامن کا ساتھ ہونے کے باوجود تعلقات میں گرم جوشی اور چاشنی پیدا نہیں کرسکے، ہم نے افغانیوں کے لیے بہت قربانیاں دیں مگر جواب میں ہمیں وہ محبت نہیں ملی جس کا تقاضا حالات اور وقت کرتا رہا۔ اس دیریہ مسئلہ پر سیر حاصل قومی مباحثے کی ضرورت ہے۔کیوں نہ ہم ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں جو بدقسمتی سے 77 سال میں نہ ہوسکے۔ کشمیر کا تنازعہ موجود ہے اس کا حل ڈائیلاگ اور مثالی تعلقات سے ممکن ہے۔ ہندوستان اور چین کے مابین کئی لڑائیاں ہوئیں مگر تجارت جاری رہے دوسری طرف ہم بھارت سے اختلاف کو دشمنی کا رنگ دے دیتے ہیں جس سے تجارت یہاں تک کہ کرکٹ بھی ختم ہوجاتی ہے حالیہ چمپیئن ٹرافی اس کی مثال ہے۔ ہندوستان نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے منع کر دیا تھا۔ آج ملک کے اندرونی حالات تشویش ناک نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کی حالت ہمارے سامنے ہے جس طرح اس معاملہ کو ہینڈل کیا جارہا ہے وہ تسلی بخش نہیں، حالات سازکار بنانے کے لیے حقیقی الیکشن سے حقیقی لیڈر شپ سامنے آنی ضروی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں مصنوعی پارٹیاں بن چکی ہیں جن کا عوام سے براہ راست تعلق بہت کم ہے۔ پارٹیوں میں جمہوریت ہے نہ ڈسلپن ہے۔ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے حالات بھی سب سے کے سامنے ہیں!! سوائے جمعیت علماء السلام اور جماعت اسلامی کے کوئی پارٹی عوامی جماعت کہلانے کی حقدار نہیں۔ اسی لئے آج مولانا فضل الرحمان اور انکی پارٹی کی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ضرورت ہے۔28 فروری 2025ء کا اکوڑہ خٹک میںحادثہ معمولی نہیں ، اس میں پہلے مولانا سمیع الحق کو شہید کیا گیا اب ان کے صاحب زادے کو نشانہ بنایا گیا یہ ان ہی خراب پالیسیوں کا تسلسل ہے جن کی وجہ سے اس طرح کی گڑ بڑ ہوتی رہی۔ یہ معاملہ صوبائی حکومت کے ہینڈل کرنے کا نہیں ہے۔قومی سطح پر سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور دیکھیں ہم نے اب کیا کرنا ہے؟ ملک میںجو بگاڑ ہو چکا بس بہت ہوگیا، اب معاملات کو صحیح سمت میں لے کر جانا چاہیئے۔ قوم اور ملک مزید انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کی حقیقی حکومت سامنے لائی جائے، حقیقی نمائندوں کو ان پاور کریں ان سے کام لیں۔ یہاں دانشور گروپ کا تھنک ٹینک بنائیں اور ہر تھنک ٹینک عوام کی نمائندگی کے ساتھ ہوں۔ پولیٹیکل پارٹنر کو عوامی سطح پر منظم کریں اس سے صورت حال میں بہتری آئیگی۔قائداعظم  مسلم لیگ کی مقامی لیڈر شپ سے بغیر اپارٹمنٹ کے ملاقات کرتے تھے کاش ہمارے لیڈر بھی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کیساتھ کارکنوں کو بھی ملاقات کا وقت دیں۔

مزیدخبریں