پاکستان کا خلائی خواب: حقیقت یا سراب؟

Mar 03, 2025

نازیہ مصطفےٰ

جب قوموں کی ترقی کی داستان لکھی جائے گی، تو وہ صفحات سنہرے ہوں گے جن میں سائنسی کامیابیوں، خلائی تسخیر، اور نئی دنیائوں کی دریافت کا ذکر ہوگا۔ آج کے دور میں جس ملک کی نظر ستاروں پر نہیں، وہ زمین پر بھی بھٹکنے کے لیے مجبور ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاکستان اپنا پہلا انسانی خلائی مشن بھیجے گا۔ سپارکو اور چینی خلائی ایجنسی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو حکومت ایک سنگ میل قرار دے رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقیقتاً ایک سنگ میل ہے یا محض سیاسی بیانات کا ایک نیا باب ہے؟
یہ خبر پڑھتے ہی میرے ذہن میں ماضی کے وہ سارے خواب گھومنے لگے جو قوم کو دکھائے گئے تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہم 2000ء تک ایشین ٹائیگر ہوں گے، کسی نے 2010ء  میں ہمیں جدید ترین صنعتی طاقت بنا دینے کا وعدہ کیا، اور اب 2025ء میں ہمیں خلائی مہمات کے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ ہم خلا میں جائیں گے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری بنیادیں اس قابل ہیں کہ ہم خلائی تحقیق کے میدان میں قدم رکھ سکیں؟
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم چاند اور ستاروں میں دیکھنے کی خواہش ہر پاکستانی کے دل میں ہے، لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لیے جو بنیادی ڈھانچہ درکار ہے، وہ کہاں ہے؟ خلائی تحقیق اور سائنسی ترقی کسی ایک معاہدے سے ممکن نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے، جس کے لیے برسوں کی محنت، وسائل، اور ٹیکنالوجیکل سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ چین کے ساتھ ہمارا دفاعی، اقتصادی اور تکنیکی تعاون کئی دہائیوں پر محیط ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ چین کی خلائی ایجنسی (سی این ایس اے) جہاں کھڑی ہے، وہاں پہنچنے کے لیے ہم نے اب تک کیا کیا ہے؟ چین نے اپنا پہلا انسان بردار خلائی مشن 2003ء میں کامیابی سے انجام دیا تھا، اور تب سے وہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے 1961ء میں سپارکو جیسا بہترین ادارہ قائم کیا، لیکن اس کے بعد کی کہانی ناکامیوں، وسائل کی کمی، اور حکومتی عدم دلچسپی کی ایسی داستان ہے جس پر لکھیں تو آنکھیں نم ہوجائیں۔
وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ صاحب فرما رہے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں خلائی تحقیق پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے فنڈز کی کمی کا شکار ہیں، تحقیقی منصوبے ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں، اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمارے ذہین دماغ بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ہم ایک سال میں پاکستانی خلا بازوں کو چین کے خلائی اسٹیشن میں بھیجیں گے، حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی نعرہ معلوم ہوتا ہے۔
اگر ہم واقعی خلائی تحقیق میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ناصرف اپنی تعلیمی پالیسی کو بہتر بنانا ہوگا بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ صرف چین کے تعاون پر انحصار کرنا، اور بغیر خود کچھ کیے، ترقی کرنے کی خواہش حقیقت سے کتنی میل کھاتی ہے، اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔
یہی چین تھا جو 1949ء میں ایک غریب ملک تھا، مگر اس نے اپنی تعلیمی اور سائنسی پالیسیوں کو درست سمت میں رکھا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ ناصرف خلائی تحقیق میں دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہے بلکہ جلد ہی وہ امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے، لیکن دوسری جانب ہم نے پچھلے 78 سالوں میں کیا کیا؟
اس وقت پاکستان میں بنیادی سائنسی تحقیق کے لیے بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سپارکو کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جہاں فنڈز کی کمی اور حکومتی عدم توجہی کے سبب کئی اہم منصوبے یا تو رْک چکے ہیں یا پھر انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔
چین کی مدد سے پاکستانی خلا بازوں کو تربیت دینا یقیناً ایک اچھا اقدام ہے، مگر یہ ایک عارضی حل ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے خلاباز خلا میں بھیجنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی خلائی ایجنسی کو مستحکم کرنا ہوگا، مقامی سطح پر سائنسی اور ٹیکنالوجیکل بنیادیں مضبوط کرنی ہوں گی، اور ایک مستقل اور دور رس حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔جی ہاں، یہ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے جو اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، وہ ہمیں فوری طور پر کرنے ہوں گے۔ اگر ہم صرف چین پر انحصار کریں گے، اور خود کچھ نہیں کریں گے، تو ہماری حیثیت محض ایک خلائی مسافر کی ہوگی، نہ کہ خلائی تحقیق کرنے والی ایک خودمختار قوم کی۔
پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، لیکن ہمیں اپنے وسائل کو درست سمت میں لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے، تو یہ معاہدہ بھی ماضی کے کئی دیگر منصوبوں کی طرح فائلوں میں دفن ہو جائے گا، اور آنے والی نسلیں ہمیں اسی طرح یاد کریں گی جیسے ہم آج 1961ء میں سپارکو کے قیام کو یاد کرتے ہیں کہ ایک عظیم خواب، جو تعبیر سے محروم رہا۔
اگر حکومت واقعی اس معاہدے کو سنگ میل سمجھتی ہے، تو اسے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ محض ایک وقتی اعلان نہ رہے بلکہ پاکستان میں خلائی تحقیق کے ایک نئے دور کی شروعات کرے۔ اگر ہم نے اپنی پالیسیاں درست کرلیں، تو یقیناً ایک دن ایسا آئے گا جب سبز ہلالی پرچم زمین پر ہی نہیں، بلکہ خلا میں بھی فخر کے ساتھ لہرائے گا۔ لیکن اگر ہم نے اپنی موجودہ روش نہ بدلی، تو یہ خلائی خواب بھی محض ایک سراب ثابت ہوگا۔

مزیدخبریں