بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تحصیل جنڈ کا بیشتر رقبہ بارانی ہے بارشیں ہو جائیں تو فصلیں اچھی ہو جاتی ہیں تحصیل جنڈ کے کسانوں کی زمینوں سے جوفصل پیدا ہوتی ہے وہ پورے سال کیلئے ناکافی ہے کاشتکار ،کسان، زمیندار بھی گندم خرید کر گزارہ کرتے ہیں پاکستان میں بارانی زرعی یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں لیکن ابھی تک وہ فصلوں کی نئی اقسام دریافت نہیں کر سکیں پتہ چلا ہے کہ پروسی ملک بھارت اجناس کی نئی اقسام دریافت کرنے میں ہم سے آگے ہے وہاں گندم اور دیگر اجناس کی جو اقسام دریافت ہوئی ہیں وہ بہت زیادہ کامیاب ہیں وہ گندم ،پھل ،گنا ،سبزیات جن میں ٹماٹر ،پیاز،مٹر ،پھالک کی ایسی اقسام دریافت کر رہے ہیں جن سے ملک میں زمینداروں کی حالت بہتر ہو سکے یہاں دفاتر تو موجود ہیں لیکن ریسرچ کا مسلہ اتنا تیز نہیں ہوا جس سے ملک میں اجناس کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو سکے تحصیل جنڈ کا کل رقبہ پانچ لاکھ اکتر ہزار نوصد ستاون ایکڑ پر مستمل ہے اس تحصیل میں گیارہ رکھ بے چراہ ہیں جہاں کوئی آبادی نہیں ہے مواضعات کی تعداد 77ہے کئی مواضعات تک پہنچنے کیلئے راستے ناپختہ ہیں تحصیل جنڈ کی دیگر سڑکوں کی حالت بھی بڑی دیدنی ہیں یہ سڑکیں فٹ پاتھ کا منظر پیش کر رہی ہیں سڑکیں ہیں لیکن ان پر ٹریفک نہیں چل سکتی پنڈ سلطانی لاری اڈا سے براستہ دومیل شہر سے اٹک جانے والی قومی شاہراہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے سڑک پر جا بجا گڑھے بنے ہوئے ہیں ٹرانسپورٹر اس سٹرک کا رخ نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ ہماری گاڑیوں کا نقصان ہوتا ہے اس سڑک کی تعمیر سے اٹک جنڈ کا فاصلہ 13/14کلو میٹر کی مسافت کم ہو جاتی ہے اب اٹک سے جنڈ جانے والی گاڑیوں کو بسال چوک سے ہو کر جنڈ جانا پڑتا ہے بقیہ سڑکیں رنگلی تا کوٹ چھجی ناڑہ جانے والی سڑک کی مسافت 35/36کلومیٹر ہو گی سڑک معدوم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس مسافت کا کرایہ 90روپے ویگن والے وصول کر رہے ہیں پنڈ سلطانی تا دومیل کا فاصلہ تین کلو میٹر ہوگا اس مسافت کا کرایہ فی سواری تیس روپے رکشہ والے وصول کرتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کوئی آفیسر اپنے دفتر سے نکل کر کسی کو چیک نہیں کرتا کہ عوام سے کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے یہ آفیسر اب بھی عوام کو اپنا خادم سمجھتے ہیں جبکہ عوام کے ٹیکسوں سے انہیں تنخواہ ملتی ہے کسی آفیسر سے ملنا بھی مشکل ہوتا ہے جب کوئی سائل کسی دفتر جاتا ہے کہ وہ کمشنر کی میٹنگ میں ہیں سائل تنگ آکر جانا بھی چھوڑ دیتا ہے پولیس کے رویے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی سکی جبکہ بجلی گیس کے نرخوں میں اضٖافہ سے غریب آدمی دیہاڑی دار طبقہ زبر دست متاثر ہوا ہے بل ادا کرنے کیلئے ان کے پاس رقم نہیں ہوتی،ماہانہ راشن بچوں کی فیسیں ادا کرنا بڑے دل گردے کا کا م ہے نوجوان نسل کو نوکریاں نہیں ملتی یہ نوجوان خود اپنے آپ پر اور والدیں پربوجھ بنے بیٹھے ہیں گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا جائیں تو جائیں کہاں یہ کیسی منصوبہ بندی ہے ریلوے ،پی آئی اے کی بری حالت ہے ریلوے کوٹھیکہ پر چلایا جا رہا ہے انگریز وں نے پہاڑوں کا سینہ چیر کر ملتان سے اٹک تک سرنگیں بنائیں اس زمانے میں کرائے کم ہوتے اٹک کندیاں سیکشن پر چلنے والی ریل کار جو ٹھیکہ پر چلتی ہے اس کے کرایوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے غریب لوگ ان ٹرینوں پر سفر کرتے تھے امرا کے پاس تو اپنی ٹرانسپورٹ ہوتی ہے انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی جبکہ جو غریبوں کے امدادی پروگرام چلتے ہیں ان میں پارٹی افراد کی مدد کی جاتی ہے غریبوں کیلئے کئی بہانے گھڑ لئے جاتے ہیں ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ دور افتادہ ہونے کی وجہ سے یہاں فنڈز ہی ختم ہو جاتے ہیں ہسپتالوں میں ادویات کا فقدان ہے ان ہسپتالوں سے ادویات کا ملنا مشکل ہی ہوتا ہے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر بورڈ بڑا خوبصورت لیکن اس ہسپتال میں ادویات کی کمی ہے ہارٹ کے مریضوں کو ہر چودہ دن بعد جاناپڑتا ہے جہاں دو تین ادویات ملتی ہیں باقی بازار سے جبکہ اے ایف سی سے مریضوں کو ایک ماہ کی دوا دی جاتی ہے ایک ہزار روپے کرایہ لگا کر جانے والے مریضوں کو جب دو تین دوائیں ملتی ہیں تو وہ بے چارہ کیا سوچتا ہو گا انجو گرافی کیلئے چوبیس ہزار کی رقم ہو تو تب کی جاتی ہے چیک کرنے والے ڈاکٹرز صاحبان کا رویہ بھی انتہائی کرفت ہوتا ہے ۔کسی زمانے میں انگریزی دور میں زمین کی گرداوری انگریز ڈپٹی کمشنر گھوڑوں پر چڑھ کر کرتے تھے لیکن دور گیا اب تو تحصیلدار پٹواری ڈپٹی کمشنر سے ملنا بھی مشکل ہے کسی وزیر کو درخواست دی جائے تو موصوف آفیسر کو واپس آ جاتی ہے تحصیل جنڈ میں قیمتی زرعی رقبہ بتدریج کم ہو رہا ہے سڑک کے کنارے بڑے بڑے ہوٹل قائم ہو چکے ہیں جبکہ سڑک کے کنارے کافی اراضی غیر مقامی افراد نے پٹرول پمپ بھی تعمیر کر لئے ہیں شاہد ملک میں پٹرول پمپوں کی زیادہ ضرورت ہے باقی رہی سہی کسر موبائل ٹاور والوں نے لے رکھی ہے تحصیل جنڈ کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں تین چار ٹاور آپ کو نظر آئیں گے ہر ٹاور آٹھ مرلے جگہ گھیریا ہے جو آبادی کے اندر اور زرعی زمینوں میں نصب ہیں ۔ان سے بھی زرعی اراضی میں زبر دست کمی ہوئی ہے جن کے ریڈ یائی لہریں انسانوں کی صحت کیلئے مضر ہیں ان ٹاورکو آبادی سے باہر منتقل کیا جائے تاکہ انسان بیماریوں سے محفوظ ہوں آئیل فیلڈز سے نکلنی والی زہریلی گیس ایچ ٹو ایس کو روکنے کی خاطر اقدامات کیے جائیں جبکہ علاقہ جندال کے ان شہروں کو گیس فراہم کی جائے جن کا اسی گیس پر ترجیحی حق ہے جن میں رنگلی،پنڈ سلطانی،،دومیل ۔تھٹہ ،بسال ،مٹھیال ،کھنڈا وغیرہ شامل ہیں۔