الیکشن کمشن کا سینیٹ کے آج کے انتخابات خفیہ رائے دہی کے مروجہ طریق کار کے تحت ہی کرانے کا فیصلہ
وفاق ، سندھ ، خیبر پی کے اور بلوچستان سے سینیٹ کی باقیماندہ 37 نشستوں کے لئے قومی اسمبلی اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں آج -3 مارچ کو پولنگ کا انعقاد ہو رہا ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی گیارہ جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر پہلے ہی بلامقابلہ انتخاب عمل میں آ چکا ہے جس میں حکمران پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے پانچ پانچ امیدوار منتخب ہو چکے ہیں اور ایک جنرل نشست پر مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ آج سینیٹ کے لئے خیبر پی کے کی 12 ، سندھ کی گیارہ ، بلوچستان کی 12 ، اور اسلام آباد کی دو نشستوں پر انتخاب عمل میں آئے گا۔ ان نشستوں پر خیبر پی کے میں 41 ، بلوچستان میں 32 ، سندھ میں 17 ، اور اسلام آباد میں چار امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
یہ انتخابات آئین کی دفعہ 226 کے تحت خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر ہوں گے جس کے لئے سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ نے بھی شو آف ہینڈز کے لئے حکومتی صدارتی ریفرنس پر گزشتہ روز اپنی رائے دی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین و قانون کے تحت ہی عمل میں آئیں گے تاہم سپریم کورٹ نے پاکستان الیکشن کمشن کی آئین کے مطابق خودمختاری پر صاد کرتے ہوئے آٹھ صفحات پر مشتمل اپنی رائے میں قرار دیا کہ آئین کی دفعہ 218 کے تحت کرپٹ پریکٹس کا خاتمہ بھی الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمشن کی ہدایات کے پابند ہیں۔ اسی طرح فاضل عدالت عظمیٰ نے ووٹ ہمیشہ کے لئے خفیہ نہ رہنے کے حوالے سے نیاز احمد کیس میں سپریم کورٹ کے 1967ء کے فیصلہ کا حوالہ دیا اور الیکشن کمشن کو ڈالے گئے ووٹوں کی شناخت کے معاملہ میں ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت تمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لانے کا کہا۔
فاضل عدالت عظمیٰ کی اس رائے کے حوالے سے حکمران پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور عہدے داران ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کرتے بھی نظر آئے جبکہ اس ایشو پر آئینی اور قانونی ماہرین کی آراء بھی سامنے آئیں۔ حکمران پی ٹی آئی کے وفاقی وزراء شفقت محمود ، فواد چودھری ، بابر اعوان ، شہزاد اکبر ، فیصل جاوید اور شہباز گل نے سپریم کورٹ کی رائے کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشن کے ارکان سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کی حتمی رائے کی بنیاد پر سینیٹ کے انتخاب میں بیلٹ پیپر پر بار کوڈ یا کسی ایسی دوسری چیز کا استعمال کیا جائے جس سے ووٹ کی شناخت ہو سکے۔
اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے عہدے داران شاہد خاقان عباسی ، سردار ایاز صادق ، مریم اورنگ زیب اور عطاء اللہ تارڑ نے چیف الیکشن کمشنر مسٹر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمشن کے ارکان سے ملاقات کے دوران اس امر کا تقاضہ کیا کہ سینیٹ کے انتخابات پرانے طریق کارکے مطابق خفیہ رائے دہی کے تحت ہی کرائے جائیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے ان دونوں فریقین کی آراء اور تقاضے کے بعد کمشن کا اجلاس طلب کیا جس میں یہ طے کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی حتمی رائے کی روشنی میں سینیٹ کے انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کے سدباب کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں گے اور انتخابات آئین اور قانون کے مطابق ہی ہوں گے جس کا سپریم کورٹ نے تقاضہ کیا ہے۔ کمشن نے ایک تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی جو چار ہفتے کے اندر اندر اس بارے میںرائے دے گی کہ انتخابات میں ووٹ کی شناخت کے لئے ٹیکنالوجیز کے کون سے ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں تاہم سینیٹ کے -3 مارچ کے انتخابات وقت کی کمی کے باعث پرانے طریق کار کے تحت ہی کرائے جائیں گے۔
الیکشن کمشن کے اس فیصلہ کے بعد سینیٹ کے آج کے انتخابات بہرصورت پرانے مروجہ طریق کار کے تحت ہی خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر ہوں گے جس کے لئے اس وقت تک کوئی قانونی اور آئینی قدغن موجود نہیں اور سپریم کورٹ کی حتمی رائے کے بعد شو آف ہینڈز کے طریق انتخاب کے لئے صدارتی آرڈی ننس بھی غیر موثر ہو چکا ہے۔ حکمران پی ٹی آئی سینیٹ کے انتخابات میںشو آف ہینڈز کا طریق انتخاب ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کو فروغ پانے سے روکنے کے لئے استعمال کرنا چاہتی تھی جس کے لئے وزیراعظم عمران خاں نے ماضی میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے حوالے بھی دئیے اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خاں نے سپریم کورٹ کے روبرو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ لوگ نوٹوں کے بیگ بھر کر اس وقت اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور سینیٹ کے انتخاب کے لئے بھائو تائو کر رہے ہیں اس لئے یہ لعنت روکنے کے لئے شو آف ہینڈز کا طریق انتخاب اختیار کرنا ضروری ہے تاہم الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ کے روبرو دوٹوک موقف اختیار کیا کہ آئین کی دفعہ 226 کے تحت سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہی ہوں گے جب تک اس آئینی دفعہ میں ترمیم نہ کر لی جائے۔
اس حوالے سے حکومت کو چاہئے تھاکہ وہ شو آف ہینڈز کے تحت انتخابات کے لئے آئین کی دفعہ 226 میں ترمیم کا مسودہ قومی اسمبلی میں لے کر آتی اور اگر اپوزیشن بھی میثاق جمہوریت کی بنیاد پر ہارس ٹریڈنگ کے خاتمہ کے عہد پر کاربند ہوتی تو پارلیمنٹ میں شو آف ہینڈزکے طریق کارکے لئے آئینی ترمیم منظورکرانے میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیتی تاہم حکومت نے پارلیمنٹ سے بالا بالا شو آف ہینڈز کا طریق کار رائج کرانے کی کوشش کی تو اپوزیشن قائدین کے بقول حکومت کی نیت کچھ اور تھی۔ اب چونکہ الیکشن کمشن نے خفیہ رائے شماری کے مروجہ طریق کار کے تحت ہی سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد طے کر لیا ہے جس کے لئے ایک خودمختار آئینی ادارے کی حیثیت سے اسے اختیار بھی حاصل ہے اس لئے اب کسی فریق کی جانب سے کوئی مین میخ ڈالے بغیر آج کے سینیٹ کے انتخابات کا عمل قبول کیا جائے اور الیکشن کمشن یا کسی دوسرے ریاستی ادارے کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر سینیٹ انتخابات میںفی الواقع ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کا خاتمہ مقصود ہے تو اس کے لئے باضابطہ طور پر پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لائی جائے ۔ اس حوالے سے کسی ماورائے آئین سوچ کی بہرحال حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024