گزشتہ روز ہم بات کر رہے تھے بلاسودی سیمینار میں سرور حسین نقشبندی کی شرکت اور ان کے خطاب کی۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی معاشیات اور بینکنگ سسٹم کے ماہرین کو سر جوڑ کر مل بیٹھنا چاہئے اور پہلے سے کی گئی کوششوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے نئے زاویوں سے سوچنے کے عمل کا آغاز کریں۔مجیب الرحمن شامی صاحب نے کہا کہ بینکنگ سسٹم کامسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا ہے۔ترکی اور ایران کے بارے میں کیا کہیں گے کہ جو ابھی تک اس کے متبادل پہ خاطر خواہ کام نہیں کر سکے۔بلاسود بینکاری میں پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں سے دوسرے ملکوں نے استفادہ کیا۔ یعنی پاکستان اس معاملے میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔اب تک جو کاوشیں ہو چکی ہیں ان کا جائزہ لے کر اس عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔جن معیشتوں کو ہم برا بھلا کہتے ہیں وہاں تو سود کم ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں بڑھتا جا رہا ہے۔امریکہ میں اڑھائی فیصد اور جاپان میں یہ ایک فیصد تک پہنچ چکا ہے۔تقریب کے میزبان سندھو صاحب کی طرف سے پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔اب آج کے موضوع ’’علاقے میں بدلتے ہوئے دفاعی دھارے‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ علاقائی سطح پرغیرمتوقع طور پر تبدیلیوں کے اشارے ملے ہیں۔اس صورت حال پر سی پیک واچ کے صدر اور سمیع حیات انٹرپرائزز کے سربراہ سمیع اللہ نے ایک ورچوئل کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں جاپان سے ممتاز شاعر اور دانشور عامر بن علی، نیویارک سے نوائے وقت کے ایک سابق میگزین ایڈیٹر آصف نذیر اور یو کے ہڈرز فیلڈ سے چودھری وحید اختر نے شرکت کی۔لاہور میں سمیع اللہ اور کشمیر وکلاء محاذ کے چیئر مین عابد حسین بھٹی نے مکالمے میں حصہ لیا۔ میںنے کو آرڈی نیٹر کے فرائض انجام دیئے اور شبیر عثمانی نے سب شرکا ء کو زوم ٹیکنالوجی ذریعے باہم مربوط کیا۔
سمیع اللہ نے بحث کے شروع میںکہا کہ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری کا نتیجہ ہے کہ بھارت عالمی محاذ پر تنہا رہ گیا ہے اور اس کے آرمی چیف کو پیش کش کرنا پڑی کہ پاکستان اور بھارت کو کنٹرول لائن پر پہلے کی طرح مکمل سیز فائر کو ملحوظ رکھنا چاہئے، اس تجویز کے بعددونوں ملکوںکے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن کا استعمال کیا۔ اب یہ اشارے مل رہے ہیںکہ کوئی وقت آیا چاہتا ہے کہ مشرف دور کے تجارتی روابط بھی بحال ہو جائیں ۔اور کنٹرول لائن پر بے گناہ جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ رک جائے۔ کشمیروکلاء محاذ کی ترجمانی کرتے ہوئے عابد حسین بھٹی نے کہا کہ بھارت نے بہتر برسوں سے وادی کشمیر میں جبر وستم کا جو بازار گرم کر رکھاہے اور دو سال پہلے آرٹیکل تین سو ستر ا ورا ڑتیس اے کی جو دھجیاں بکھیری ہیں اور وادی کے عوام کا جس طرح حقہ پانی بند کیاا ور بیرونی دنیا سے انہیں کاٹ کر رکھ دیا۔ا س سے بھارت کا جمہوری اور سیکولر چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے، بھارت کے پاس اس کا کوئی جواز نہ تھا اورا سے ایک نہ ایک روز دنیا کے ضمیر کے سامنے سرنڈر کرنا ہی تھا۔اوپر سے اس نے لداخ کے محاذ پر چین سے پنگا لیا اور منہ کی کھائی۔نیویارک سے آصف نذیر نے گرہ لگائی کہ وائٹ ہائوس میں صدارتی تبدیلی کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت کو دبائو کا شکار ہونا پڑا، سابق صدر ٹرمپ تو انڈیا کی وسیع تجارتی منڈیوں کے عشق میں مبتلاتھے اور یوں بھارت کوکشمیر میں خون کی ہولی کھیلنے کی کھلی چھٹی ملی رہی مگر اب حالات بدل گئے ہیں اور انڈیا کو راہ راست پر آنا پڑا ہے۔جاپان سے عامر بن علی نے تجزیہ کیا کہ اب بھارت یا امریکہ جنوبی چینی سمندر میں دخل اندازی کے قابل نہیں رہے، کیونکہ صدر جوبائیڈن کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا۔بش سے لے کر ٹرمپ تک ہر امریکی صدر نے مہم جوئی جاری رکھی لیکن عالم عرب کی فالٹ لائینز اور ترکی کے رویئے نے بھی امریکہ کو سوچ بچار پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان کے لئے موت و حیات کا ایک مسئلہ سی پیک کا بھی ہے۔سمیع اللہ نے اس کا تازہ ترین جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ چین کی اس میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ گوادربندرگاہ کی توسیع کا کام جاری ہے ، گوادر ایئر پورٹ پر بھی تیز رفتار سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، مغربی روٹ کی تکمیل کے لیے این آٹھ کا حصہ بھی مکمل ہو نے کو ہے۔یو کے سے چودھری وحیداختر نے بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فاصلوں کی کہانیوں میں کوئی حقیقت نہیں، سعودی عرب تیس ملین ڈالر زکی خطیر رقم سے گوادر میں آئل ریفائنری بنانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس ضمن میں برٹش میڈیا خبروں سے بھر اپڑا ہے۔ جہاں تک گوادر میں ہائوسنگ سیکٹر کا معاملہ ہے تو اوور سیز پاکستانی اس کے لئے وزیر اعظم کی مراعات سے بھی پورا فائدہ اٹھانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
میںنے کہا کہ پاکستان کی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے ہماری کوششیں جاری ہیں اور ہم دوحہ مذاکرات پر حرف بحرف عمل در آمد کے لئے اصرار کر رہے ہیں، خود افغان طالبان نے بھی نئی امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ا س معاہدے کی تکمیل میں سستی کا مظاہرہ نہ کرے کیونکہ ماضی میں بھی امریکی لیت و لعل کی وجہ سے خون خرابہ بند نہیں ہو سکا۔امریکہ نے بھی انیس برسوں میں دیکھ لیا کہ وہ طاقت سے افغانوں کو زیر نہیں کر سکتا اور بھارت بھی ایک حد تک افغانوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، افغان طالبان کی حکومت کے بعد توبھارت کو یہاں سے خوار و زبوں ہو کر نکلناپڑے گا۔
پاکستان کی فوجی قیادت پوری طرح چوکس ہے اور وہ اندرونی محاذ سے پیچھے ہٹ کر سیاست دانوں کو اپنے فیصلوں کااختیار دینے کے حق میں ہے، اس ضمن میں ڈی جی آئی ایس پی آرکے بیانات ریکارڈپر ہیں اور انہوںنے میڈیا کوسیاست سے پیچھے ہٹنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔پاک فوج کی یہ اسٹریٹجی کاکامیاب رہی ہے اور اب عوام کی اکثریت دفاع وطن کے سلسلے میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے، ستائیس فروری کادن عوام نے جوش و خروش سے منایا اور بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے منہ توڑ جواب دے کر ابھی نندن کا اور ایک دوسرا بھارتی طیارہ مار گرایا۔ بھارت کو ا س سے گہری خفت ہوئی اور وہ فرانس سے رافیل طیارے لینے کے باوجود مزید کسی سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی بھی نہیں دے سکا۔
بھارت اس وقت سخت انتشار کا شکار ہے۔بھارتی کسانوں نے حکومت کا بولو رام کر دیا ہے۔ بھارت کے کے نئے قوانین نے اقلیتوں کو ہند و اکثریت سے بد ظن کر دیا ہے،مودی کی بڑھتی ڈاڑھی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہند وتوا کے چنگل میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔ انڈیا کی بنیاد سیکولر ازم پر رکھی گئی تھی،اگرچہ وہ بھی بغل میں چھری اور منہ میںرام رام کے مترادف تھی مگر اب تو مہابھارت کاجنون سوار ہے اور استعماری ارادے صاف ظاہر ہیں۔
بحث کو سمیٹتے ہوئے سمیع اللہ نے کہا کہ بھارت اب من مانی کے قابل نہیں رہا۔اس پر امریکی صدر کا دبائو بڑھ رہا ہے اور چین بھی اس کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔پاکستان کی مسلح افواج بھی بھارت کا تر نوالہ نہیں بن سکتیں، سی پیک واچ کے سربراہ سمیع اللہ نے کہا کہ چین نے بھی علاقے میں کشیدگی کے خاتمے میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے، اس پر بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنی پارلیمنٹ میں بغلیں بجاتے ہوئے کہا ہے کہ لداخ میں دونوں فوجیں مرحلہ وار اپنی اصل پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی، بھارت کو پتہ چل گیا ہے کہ چین کی خوشنودی کے بغیر بھارت اپنا الو سیدھا کرنے کے قابل نہیں رہا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024