پاکستان میں سیاسی صورتحال تبدیل ہوتی رہتی ہے اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ آج کل اپوزیشن کا ستارہ چمک رہا ہے جبکہ حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کالے بکروں کا صدقہ دے۔ آصف علی زرداری اس نسخے پر عمل کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو وہ ایوان صدر میں کالے بکرے کا صدقہ دیتے اور مشکل سے نکل آتے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی ایک پریس بریفنگ میں بڑے توانا لہجے میں یہ کہا تھا کہ پاک فوج سیاست میں مداخلت نہیں کر رہی اور اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ منظر عام پر لے آئے۔ وزیراعظم عمران خان پہلی بار پارلیمانی سیاست میں بڑے متحرک اور فعال نظر آرہے ہیں جس سے پاک فوج کے ترجمان کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر ان کو طاقتور ریاستی ادارے کی حمایت اور تائید حاصل ہوتی تو وہ بڑے سکون سے وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے رہتے جس طرح وہ سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم کے دوران اطمینان اور سکون سے بیٹھے رہے تھے اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔ عمران خان کی حکومت بہت بے چین اور دباؤ کا شکار ہے۔ تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں شکست کھا چکی ہے۔ قومی اسمبلی حلقہ نمبر 75 میں کھلی دھاندلی نے عمران خان کے امیج کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کو معطل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ پنجاب کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو بھی جواب طلبی کے لیے الیکشن کمیشن ہیڈ کوارٹر بلایا گیا۔ جو لیڈر اپنی سیاسی طاقت کو نظر انداز کرکے انتظامی طاقت سے اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ ناکام ہی رہتا ہے۔ وفاقی حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے ایک آئینی سوال سپریم کورٹ کے سامنے رکھا تھا کہ کیا سینٹ کے انتخابات آئین کے آرٹیکل نمبر 226 کے تحت سیکرٹ بیلٹ پر ہونے چاہئیں یا یہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اوپن بیلٹ سے بھی کرائے جا سکتے ہیں۔ حکومت سابقہ تجربات کی روشنی میں جائز طور پر بڑی فکر مند ہے کہ اگر انتخابات سیکریٹ بیلٹ پر ہوئے تو ان کے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی گزشتہ انتخابات کی طرح اپنی وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں اور تحریک انصاف اپنی پارلیمانی عددی طاقت کے مطابق سینٹ کے اراکین منتخب نہیں کرا سکے گی جس سے اسے سخت سیاسی جھٹکا لگے گا اور حکومت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان محترم گلزاراحمد کر رہے تھے جب ک اس بینچ میں جسٹس مشیر عالم جسٹس عمر عطا بندیال جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ اس پانچ رکنی بینچ نے طویل سماعت کی اور حکومتی سوال کا یہ جواب دیا کہ سینٹ کے انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سیکرٹ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی کرائے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے شارٹ آرڈر میں تحریر کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل نمبر 218 کی شق 3 کے مطابق صاف شفاف اور کرپشن سے پاک انتخابات کرائے اور اس ضمن میں اگر اسے جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کرنی پڑے تو گریز نہ کیا جائے۔ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ بیلٹ دائمی اور قطعی طور پر خفیہ نہیں رکھا جا سکتا اور اسے قابل شناخت بنانے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں تاکہ بدعنوانی کو روکا جا سکے۔ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر کے بھی سینٹ کے انتخابات کو شفاف اور کرپشن سے پاک بنا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے مزید ابہام پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن متضاد موقف اختیار کر رہے ہیں۔ جب سیاست دان سیاسی مسئلے کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کی بجائے عدالت میں لے جاتے ہیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ سپریم کورٹ کی رائے کے بعد حتمی فیصلہ الیکشن کمشن پاکستان کو کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عدالت عالیہ کی منشا یہ ہے کہ ووٹ کو قابل شناخت بنایا جائے متناسب نمائندگی کے اصول کو پیش نظر رکھا جائے اور شفاف آزادانہ اور بدعنوانی سے پاک انتخابات کے تقاضے پورے کیے جائیں اور سارا انتخابی عمل آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے طویل سماعت کے بعد جو فیصلہ سنایا ہے۔ خصوصی بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے برادر ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے ان کے خیال میں حکومت نے کوئی آئینی سوال نہیں اٹھایا لہذا یہ صدارتی ریفرنس ہی خارج کر دینا چاہیے۔ ان کا یہ اختلافی نوٹ تفصیلی فیصلے کا حصہ ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو ایک اور سیاسی دھچکا لگا ہے حکومت کے وزراء اس سیاسی دھچکے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے پوری کوشش کر رہے ہیں اور میڈیا پر بیان بازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں سپریم کورٹ کے فیصلے کی اپنی پسند کے مطابق تعبیر اور تشریح کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی قانونی ٹیم کامیاب نہیں ہو سکی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024