ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک وادی تھی جنت نظیر جسکا نام تھا۔ اس وادی پر کتنے ہی لوگ آئے، راج کیا، اپنی سلطنت کی بساط بچھائی۔ کئی بساطیں لپیٹی گئیں۔ لیکن اس شاہی ریاست کی خوبصورتی میں کبھی کمی نہیں آئی۔ مغلوں سے لے کر افغانوں تک اور پھر سکھ راج کے بعد سے پاک ہند کے بیج کھڑا کیا گیا تنازعہ جو 1947ء سے لے کر آج تک دو قوموں کے درمیان جنگوں کی وجہ بن چکا ہے جب لداخ اور جموں و کشمیر میں 1947 سے لے کر آج تک بھی اپنا تسلط جمائے رکھنے کے باوجود بھی وہاں کی %77 مسلمان آبادی کو انڈیا کا حصہ تسلیم کروانے میں ناکامی ہی دیکھنی پڑی تو تاریخ کا بدترین لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔ شہریوں کو گھروں میں قید کردیا گیا۔ اسکا دورانیہ اتنا طویل ہوا کہ گھروں سے رسد و راشن بھی ختم ہونا شروع ہو گیا۔ ایک اخبار‘‘دی ہندو‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جہاں عوام کی توجہ کاویڈ 19 پر مرکوز ہے، جموں و کشمیر کو بیک وقت دو بار لاک ڈاؤن، بڑھتے ہوئے تشدد اور یکطرفہ حکومتی اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نریندر مودی انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 12 مہینوں میں، ان کی کشمیر پالیسی میں ایسے اقدامات شامل ہیں جو وادی میں تباہ کن سمجھے جاتے ہیں۔
مزید وہاں کی سیاسی صورتحال کا تذکرہ اور کشمیری حریت راہنماؤں کے ساتھ سلوک کے بارے میں‘‘دی ہندو‘‘ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق‘‘میر واعظ کو باہر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ گھر میں نظربند ہونے کی وجہ سے کسی بھی اہم مذہبی پروگرام میں شرکت نہیں کرسکتے۔ کسی کو بھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
تقریباً سولہ کشمیری راہنما370 دن اپنے اپنے گھروں میں قید رہے۔بین الاقومی سطح پر اگر اس کو دیکھا جائے تو کشمیر اس وقت جس طرز کی جنسی سیاست کا شکار ہے جسکی بساط اسرائیل نے فلسطین پر بچھائی ہوئی ہے۔ جیسے کہ دنیا کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ اسرائیل ایک‘‘مہذب‘‘ ملک ہے اور عربوں کی جارحیت کے خلاف اپنے‘‘مہذب‘‘ شہریوں کی حفاظت جیسا اقدام اسکا حق ہے۔ اگر کچھ مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ یہی ہوتا ہے کہ جیسے فلسطینیوں کی نسل کشی‘‘سلو موشن‘‘ کی طرز پر مہذبانہ اقدام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کی گئی۔ اسی طرح کے اقدامات کشمیر پر نسل کشی کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔اظہار خیال ایک بنیادی حق ہے جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا گیاہے- خاص طور پر اگر دنیا نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنی ہو یا اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی مقصود ہو تو یہ‘‘حق اور سچ‘‘ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے- لیکن جہاں بات آجائے کسی مسلمان اور اسکے ساتھ ہونے والی زیادتی و بربریت کی تو یہاں نہ کوئی قوم‘‘لبرٹی اور آف سپیچ‘‘ سے واقف ہے نہ ہی کسی کے پاس کوئی لبرل سوچ یا انسانی حقوق کے نعرے بچتے ہیں- کہیں دور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
جس وقت کشمیر میں جوانوں کو اٹھا لے جاتے اور تشدد کا نشانہ بناتے۔ گھروں میں لوگ بھوکے مر رہے تھے۔ آواز اٹھانے پر یہ خوف کہ پولیس لے جائے گی اور پھر کبھی جیل سے آزادی نصیب ہوگی یا زندگی سے ہی آزادی مل جائے گی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق, الطاف حسین نامی پچپن سالہ کشمیری باپ جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کو انڈین پولیس گردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا لیکن اسکی کوئی رپورٹ درج نہ کی گئی۔ وہ فٹبال کھیلنے گیا اور پھر تابوت میں لوٹا- جبکہ پولیس کے اصرار پر کہ اس روز کوئی موت واقع نہیں ہوئی- ایک پچپن سالہ باپ کو اپنے سترہ سالہ بیٹے کی موت پر خاموشی اختیار کرنی پڑی- وہ مجبور باپ ہے، ایسی جگہ رہتا ہے جہاں آواز اٹھانے پر جیل ہو جاتی ہے لیکن یہاں اپنے دیسی ٹی وی چینلز کا حال اس سے مختلف نہیں ہے- جب ہر پاکستانی کشمیر کے بارے میں جاننا چاہتا تھا تو اس وقت ایک مشہور زمانہ دھرنا وقوع پذیر ہو رہا تھا- اور ہمارا آزاد میڈیا مولانا صاحب کے یہاں حلوہ کھانے کے بعد کتنے بادام، کتنے ناریل اور پستے کھائے بس یہ گنتی بتانا بھول گیا- آج مولانا نے دھرنے میں جانے کے لئیے گاڑی میں کونسا قدم پہلے رکھا اور آج موزے کس رنگ کے پہنے تھے- بس یہی رہ گیا تھا جس پر حالات حاضرہ تبصرہ کرنے سے چوک گئے- ورنہ پاکستانی قوم یہ بھی جان جاتی کہ حلوے میں چینی کتنی ڈالی گئی۔ لیکن کوئی بات نہیں میڈیا بھی کہیں کہیں چوک جاتا ہے۔ حالانکہ ہر خبر پر نظر کے دعویدار تو بہت ہیں۔ چالیس منٹ کے پروگراموں میں پینتیس منٹ دھرنے کا حلوہ کھلا کر پانچ منٹ کسی، کسی اینکر کے منہ سے کشمیر کی بات بھی نکل آتی تھی۔
آخر کشمیر جنت نظیر پر ہمارا بھی کوئی حق ہے ارو اظہار یکجہتی دکھانا بھی ہے۔ اس وقت جب سوشل میڈیا پر کوئی خبر دیکھنا ہوتی تو پڑوسی چینلز بڑھ چڑھ کر بولتے نظر آتے۔ لیکن ہمارے حالات حاضرہ میں مولانا صاحب کا حلوہ ہی کھایا جاتا رہا۔ اس میں سے کیا نکالا یہ آج تک راز ہی ہے۔چلیں واپس کشمیر چلتے ہیں۔گوکہ کشمیر پر ہر طرح کی پابندی دہلی سرکار کی طرف سے حفاظتی تدابیر کا ایک حصہ بتایا جاتا ہے تاہم بہت سے کشمیری اس پالیسی کو ہندوستان کی ہندو قوم پرست حکومت کی طرف سے ظلم و ستم کی منظم مہم کا حصہ سمجھتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024