یہ 80 کی دہائی کی بات ہے جب راقم کو روزگار کے سلسلے میں اکثر اوقات جی ٹی روڈ کے ذریعے راولپنڈی اسلام آباد کا سفر کرنا پڑتا۔ سنگل روڈ ہونے کی وجہ سے اس وقت جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اْن میں اس وقت کمی کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہوئے جب اس دہائی کے آخری سالوں میں جی ٹی روڈ کو دو رویہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں وہ خوشگوار لمحات بھی دیکھنے کو ملے جب لاہور اسلام آباد موٹروے کا افتتاح ہوا۔ مجھے یاد پڑتا ہے یہ غالبا 2012ء کی بات ہے جب انڈیا سے ہمارے بہت ہی پیارے دوست سردار پالی سنگھ سچدیو کا یہاں پاکستان آنا ہوا اور میری خوشی اْس وقت دیدنی تھی جب پنجہ صاحب حسن آبدال سے واپسی پر مجھے پالی سنگھ کے یہ الفاظ سْننے کو ملے کہ برادرآپکی موٹروے پر سفر کر کے یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ میں آپ ہمارے بھارت سے بازی لے جاؤ گے کیونکہ آپکی اس موٹر وے کی طرح ہمارے پورے بھارت میں کوئی ایک روڈ بھی نہیں جس کا اس سے مقابلہ کیا جا سکے۔ قارئین کچھ اسی قسم کی کفیت کا راقم کو اس وقت سامنا کرنا پڑا جب پچھلے ہفتے 24 فروری بروز بدھ یہ خاکسار اپنی فیملی کے ہمراہ عرصہ تقریباً ایک سال بعد دل گردہ بڑا کر کے اسلام آباد کیلئے بذریعہ روڈ نکلا۔ ڈیفنس سے دس منٹ کی مسافت کے بعد لاہور رنگ روڈ سے ہوتے ہوئے سیالکوٹ موٹروے کو کراس کرتے کالا شاہ کاکو کے مقام پر جیسے ہی اسلام آباد موٹر وے کو ٹچ کیا تو اس آسانی پر جس سے تقریبا چالیس منٹ کے سفر کی بچت ہوئی اس پر دل سے دعائیہ کلمات نکلے کہ مولا جس کسی کی بھی وژن اور کوشش کی وجہ سے یہ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں میرے مالک اسکے لیئے پھر سے ایسے اسباب بنا کہ وہ مستقبل میں بھی اپنے ملک اور اس کے عوام کیلئے مزید آسانیوں کے راستے تلاش کرے۔ ان دعائیہ کلمات کے ساتھ تقریباً بارہ بجے جیسے ہی ہم نے اسلام آباد موٹر وے کیلئے ٹول پلازہ کو کراس کیا تو کیا دیکھتا ہوں بجلی کی تیزی کے ساتھ ایک موٹروے پولیس اہلکارایکدم ہماری گاڑی کے سامنے کود پڑے اور گاڑی کو ایک طرف پارک کرنے کا اشارہ کیا۔ میرا بیٹا جو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر تھا اس سے رسماً سلام لینے کے بعد ارشاد فرمانے لگے کہ چوآپ نے سیٹ بیلٹ نہیں لگائی ہوئی لہٰذا آپ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور جرمانے کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ میرے بیٹے نے انکی بات سْننے کے بعد عْذر پیش کیا کہ ٹول پلازہ کے عملے سے کارڈ لینے کی غرض سے اسے اپنی مومنٹ کی آزادی کیلئے سیٹ بیلٹ اتارنی پڑی ہے لہٰذا اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان صاحب کو اس نے درخواست کی اسے وارننگ دے کر چھوڑ دیا جائے جسے صاحب نے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خلاف ورزی، خلاف ورزی ہوتی ہے لہٰذا جرمانہ تو ہو گا۔ میں ڈرائیونگ سیٹ کی بالکل پچھلی سیٹ پر بیٹھا خاموشی سے سارا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے پولیس اہلکار کے یہ الفاظ سْنے کہ خلاف ورزی تو خلاف ورزی ہوتی ہے جرمانہ تو ہو گا تو میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور اہلکار سے احتراماً عرض کیا کہ اپ نے اس وقت اپنے چہرے پر ماسک بھی نہیں پہنا ہوا اور آپ ہم سے ایک فٹ کی دوری پر بھی کھڑے نہیں کیا یہ کورونا وائرس کے سلسلے میں جو قوانین ہیں انکی خلاف ورزی نہیں، جس پر پولیس اہلکار کا ایک لفظی جواب تھا ‘‘سوری’’ لیکن اْنھوں نے پھر بھی جیب سے ماسک نکالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میں نے اس پر ان سے اْنہی کا کہا ہوا ایک فقرہ کہا اور سوالیہ انداز میں پوچھا کہ آپکا یہ فعل کیا قانون کی خلاف ورزی اور قابل سزا جرم نہیں۔ اہلکار نے بڑی طنزیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور آنکھوں کی زبان سے مجھے خاموش پیغام دیا کہ اس ملک میں کیا کوئی ایسا قانون ہے جو کسی وردی والے ، طاقتور یا صاحب اختیار کو سزا کے کٹہرے میں کھڑا کر سکے جسکی تم اس وقت توقع تو بہت بڑی بات ایک سیکنڈ کیلئے تصور بھی کر رہے ہو۔
قارئین اس سارے قصے کو لکھنے کا میرا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ اس اہلکار سے اس بارے کوئی باز پرس ہو۔ میرا شعور کہتا ہے کہ اس سارے عمل میں شائد اس اہلکار کا کوئی قصور نہیں کیونکہ میرا یقین ہے کہ اس نے اسی سوچ سے کام لیا جو اسکے ذہن میں اس وقت پیوند کر دی گئی تھی جب اس نے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ اوّل تو مجھے یقین ہے کہ نوکری کے آغاز پر اسکی کوئی ذہنی گرومنگ یا تربیت ہی نہیں کی گئی ہو گی اور اگر کوئی ٹریننگ سیشن ہوا بھی ہو گا تو اسے یہ نہیں بتایا گیا ہو گا کہ بیشک قانون، قانون ہوتا ہے لیکن اسے لاگو کرتے وقت جہاں اسکے words کو دیکھا جاتا ہے وہاں اسکی spirit پر بھی توجہ دینی پڑتی ہے کہ اس اختیار کو استعمال کرتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور جب آپ اس اختیار کو استعمال کر رہے ہوتے ہو تو اس سے پہلے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا آپکی اپنی ذات کا کوئی ایسا پہلو تو نہیں جو بذات خود قانون کی نظر میں قابل گرفت ہے اور ہمارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہو۔ یقین جانیئے جس دن ہم اپنے اختیار کو ری وزٹ کر لیں گے اور ان دو الفاظ words اور Spirit کا باہمی تعلق ڈھونڈ لیں گے اس معاشرے کی ساری ناہمواریاں ختم ہو جائینگی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024