اسد عمر نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کے فنڈز روک کر بیٹھی ہے۔ اسد عمر کی بات میں وزن ہے۔ اور شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کراچی کو ایک خاص منصوبے کے تحت پسماندہ اور ویران کیا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو پنجاب، کے پی کے اور اسلام آباد پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں۔ کاش کبھی آنکھیں کھول کر سندھ کے حالات زار پر بھی نظر ڈال لیتے۔ سندھ تو یتیم اور لاوارث ہو کر رہ گیا ہے۔ بلاول بھٹو اور اُن کے ابا جان نے کراچی کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ وہ کراچی نہیں رہا جو بے نظیر بھٹو کے زمانے میں تھا۔ یہ وہ کراچی نہیں رہا جو میرے بچپن میں تھا۔ میں ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی فیملی کے ساتھ تین ماہ کے لیے حیدر آباد کراچی جایا کرتی تھی۔ یہاں ہمارے کافی زیادہ عزیز و اقارب رہتے ہیں۔ کراچی میں آخری بار میں نے جو دن گزارے تھے۔ وہ فروری 1993ء کے آخری ایام تھے۔ اس کے بعد رسوں گزر گئے مگر میں نے کراچی کا رخ نہ کیا۔ اب 27 سال بعد فروری 2020ء میں کراچی جانا پڑا جہاں کچھ فیملی فنکشنز تھے۔ میں نے 27 سال بعد حیدر آباد اور کراچی کا سفر کیا تھا۔ میں طویل عرصے سے پنجاب اور شمالی علاقہ جات تک ہی محدود تھی۔ پندرہ دنوں کا پتہ تک نہیں چلا۔ نہ صبح کا نہ شام کا…میرے ذہن میں وہی 27 سال پرانا حیدر آباد کراچی تھا جو میرے بچپن لڑکپن کی یادوں سے بھرا ہوا تھا لیکن یہاں پہلے والا کوئی منظرنہ تھا۔ حیدر آباد میں میری خالہ اور کچھ رشتہ داروں کے گھر ہیں۔ شکر ہے کہ وہ گھر ابھی سلامت تھا جہاں میں نے اپنے خالو کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا تھا اور جہاں میرے ادبی پرداخت ہوئی تھی۔ میں ان درو دیوار کو حسرتں سے دیکھ رہی تھی جہاں میرے خالہ خالو ہوتے تھے اور میری شوخیوں، ذہانتوں ، میرے ادب، سلیقے اور حاضرِ جوابیوں سے محظوظ ہوتے تھے۔ مجھے دن رات سراہتے تھے۔ اس گھر میں چوتھی جماعت سے میں نے لکھنا شروع کیا تھا جب میرے خالو نے کہا کہ ٹرین کے سفر پر سب بچے ایک مضمون لکھ کر دکھائیں تو ہم سات بچوں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ میں نے سب سے پہلے، سب سے بڑا، سب سے دلچسپ اور سب سے عمدہ مضمون لکھا۔ میں اس مقابلے میں فرسٹ آئی اور انعام کے طور پر مجھے خالو نے دس روپے دئیے۔ ہماری کرنسی جتنی گر گئی ہے تو آج کے حساب سے وہ دس روپے ایکہزار کے برابر تھے۔ اس طرح خالو ہر ہفتے کوئی مقابلہ رکھتے اور ہر مقابلے میں جیت میری ہوتی۔ اسی لیے میرے خالہ خالو مجھے بہت چاہتے اور سراہتے تھے۔ یہیں سے میری ادبی نشوونما ہوئی۔ میں اس گھر کی درودیوار کو بہت چاہتوں سے دیکھ رہی تھی۔ اگرچہ گھر کے مناظر تبدیل ہو گئے تھے لیکن درودیوار وہی تھے۔ سب کچھ تھا لیکن میرے بابا ، امی ، خالہ خالو نہیں تھے۔ دل میں ٹیس سی اٹھتی تھی۔ نہ وہ میدان تھے نہ وہ سماں تھا جہاں میں بھاگی دوڑی پھرتی تھی۔ ہر طرف ناجائز تجاوزات نے اس علاقہ کو عجیب چڑیا گھر بنا دیا تھا۔ حیدر آباد کی کھلی فضائوں پر تالے پڑے تھے۔ البتہ حیدر آباد کی وہ مسحورکن ہوائیں ابھی باقی تھیں۔ وہ سکول باقی تھا جہاں میں اپنی کزن کے ساتھ سکول بھی چلی جاتی تھی کیونکہ سندھ میں سکول ایک ماہ پہلے کُھل جاتے تھے۔ دو دن حیدر آباد رہ کر ہم دس دن کیلئے کراچی آ گئے کیونکہ یہاں تقریبات تھیں اور زیادہ تر عزیز کراچی میں تھے۔ میری بیٹی پہلی مرتبہ کراچی آئی تھی۔ وہ کراچی دیکھنا چاہتی تھی۔ کراچی میں وقت کم اور تقاریب زیادہ تھیں۔ رشتہ دار بھی کافی تھے اور سیاحتی مقامات بھی زیادہ تھے۔ میں نے اپنی آمد خفیہ ہی رکھی تھی کیونکہ کراچی کے علمی ادبی اور سماجی حلقوں میں ذرا بھی میری آمد کی بھنک پڑ جاتی تو میرا فیملی ٹرپ بری طرح ڈسٹرب ہو جاتا۔ پھر بھی نسیم شاہ ایڈووکیٹ کو جونہی علم ہوا انہوں نے جمخانہ کراچی کلب میں میرے اعزاز میں تقریب رکھ دی مگر میں نے معذرت کرلی۔ میری بھی کراچی کے علمی ادبی حلقوں سے ملنے کی خواہش تھی لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے مجبور تھی۔ ہم صبح چار بچے تک جاگے رہتے تھے۔ ہم سمندر پر بھی دو مرتبہ گئے۔ کلفٹن اور ہاکس بے پر جا کر احساس ہوا کہ کراچی کو سندھ حکومت نے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ سمندر کے ساحلوں پر گندگی اور لاپرواہی ناچ رہی تھی۔ اگر صرف سمندر کے ساحلوں پر صفائی اور دیگر لوازمات کا انتظام کر دیا جائے تو کراچی کا خرچہ نکل آئے۔لیکن کراچی کی ہوائوں کا جواب نہیں۔ کراچی میں تہذیب ہے۔ لوگوں میں آداب اور اخلاقیات ہیں لیکن زیادہ آبادی غریب اور قلاش نظر آتی ہے۔ اگر کراچی کو لاہور کی طرح توجہ دی جائے اور اُس پر فنڈز استعمال کئے جائیں تو صرف کراچی سے اتنا پیسہ جنریٹ ہو سکتا ہے کہ اس پر پورا پاکستان پل سکتا ہے لیکن کراچی کو اتنا کمزور اور میلا کر دیا ہے کہ کراچی دیکھ کر میرا بھی دل میلا ہو گیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38