اب بہتر ہے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرکے انہیں قیادت سے محروم کرنے کی سازشیں ترک کردی جائیں
پنجاب سے سینٹ کی خالی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی آزاد حیثیت میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی
حکمران مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد قومی اسمبلی کی چار نشستوں کے ضمنی انتخابات میں بھاری مارجن کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب پنجاب سے نہال ہاشمی کی خالی ہونیوالی سینٹ کی نشست پر بھی بھاری اکثریت کے ساتھ معرکہ مارلیا۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں منعقد ہونیوالے اس انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوارڈاکٹر اسداشرف 350 میں سے 298 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوگئے۔ انہیں مجموعی 309 ووٹ ملے جن میں سے 11 ووٹ مسترد ہوگئے اور وہ 298 ووٹوں کے ساتھ منتخب سینیٹر قرار دیئے گئے۔ انکے مدمقابل تحریک انصاف کی امیدوار زرقا سہروردی کو مجموعی 38 ووٹ ملے جن میں مسلم لیگ (ق) کے پانچ اور تین آزاد ارکان کے ووٹ بھی شامل ہیں۔ اس انتخاب میں کامیابی کیلئے کم از کم 169 ووٹ درکار تھے اور پنجاب اسمبلی کے 368‘ ارکان پر مشتمل ایوان میں ہونیوالے اس انتخاب میں 350 ارکان نے ووٹ کا حق استعمال کیا جن میں سے مسترد شدہ ووٹوں سمیت مسلم لیگ (ن) کے اسداشرف نے 309 ووٹ لے کر دوتہائی سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت میاں نوازشریف کی پارٹی سربراہ کی حیثیت سے بھی نااہلیت کے باعث الیکشن کمیشن نے ڈاکٹر اسداشرف سمیت انکے دستخطوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن)کے نامزد کردہ سینٹ کے تمام امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دے دیا تھا چنانچہ ڈاکٹر اسداشرف کی آزاد حیثیت سے بھی کامیابی نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو مائنس نوازشریف بنانے‘ تقسیم کرنے اور اسکے ارکان کو توڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی اور جتنا اس پارٹی قیادت پر دبائو ڈال کر اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ہے‘ اتنا ہی وہ مزید سرخرو ہو کر میدان عمل میں ڈٹی ہوئی نظر آتی ہے۔
گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف‘ قائم مقام صدر میاں شہبازشریف اور سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمداقبال نے ڈاکٹر اسداشرف کو انکی بے مثال کامیابی پر مبارکباد پیش کی جبکہ مریم نواز نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ’’الحمدللہ مسلم لیگ (ن) کے ہر ممبر نے اپنی پارٹی کو ووٹ دیا‘ کیا ملا آپکو جماعت کا نام اور نشان چھین کر‘ کیا ملا سوائے ناکامی‘ بدنامی اور ادارے کی رسوائی کے۔ آج پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی سازش ناکام ہوگئی۔‘‘ ڈاکٹر اسداشرف نے کہا کہ وہ اپنی رکنیت کا حلف اٹھانے تک آزاد ہیں‘ اسکے بعد وہ اپنی آزادی میاں نوازشریف کے قدموں پر نچھاور کردینگے اور نوازشریف اور شہبازشریف کا رکن بن کر دکھائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کی اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ صوبائی وزیر کواپریٹو ملک محمد اقبال چنڑ اپنی ناسازی طبع اور اپنے معالجین کی مکمل آرام کی خصوصی ہدایت کے باوجود وہیل چیئر پر ووٹ ڈالنے پنجاب اسمبلی آگئے جبکہ شیخوپورہ سے مسلم لیگ (ن) کے رکن پنجاب اسمبلی عارف خان سندھیلہ سٹریچر پر ووٹ ڈالنے آئے جنہوں نے میاں نوازشریف کی نااہلیت کیخلاف تامرگ بھوک ہڑتال کر رکھی تھی تاہم گزشتہ روز پارٹی قیادت کے حکم پر انہیں زبردستی جوس پلاکر انکی بھوک ہڑتال ختم کرائی گئی اور انہیں سٹریچر پر ڈال کر پنجاب اسمبلی میں لایا گیا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن پنجاب اسمبلی ملک وحید نے ووٹ شو کرکے ڈالنے کی ممکنہ سزا کی پروا کئے بغیر اپنا ووٹ بیلٹ بکس میں ڈالنے سے پہلے لہرا کر مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کو دکھادیا جس پر ان کا ووٹ منسوخ کردیا گیا۔ اس تناظر میں مریم نوازشریف کا ٹویٹر پیغام کے ذریعے کیا گیا یہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نہ بکی نہ جھکی‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مخالفین کے سب اندازے غلط ہوگئے اور ہر مسلم لیگی نوازشریف بن گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدوار کا آزاد امیدوار قرار پانے کے بعد سینٹ کی خالی نشست پر اتنی بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہونا مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں مثالی اتحاد ہی کی عکاسی کررہا ہے جو سینٹ کی 52 خالی نشستوں پر آج بروز ہفتہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہونیوالے پولنگ کے رجحان کیلئے بھی واضح اشارہ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں سات جنرل نشستوں سمیت مجموعی 13 نشستوں پر انتخاب عمل میں آنا ہے جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پہلے ہی دعویٰ کرچکی ہے کہ ان تمام نشستوں پر کامیابی مسلم لیگ (ن) کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے۔ اگر ان نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اپنی آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے جہاں عوام اور منتخب ایوانوں میں مسلم لیگ (ن) کی سرخروئی پر مہرتصدیق ثبت ہوگی وہیں یہ صورتحال ان حلقوں کیلئے لمحۂ فکریہ بھی ہوگی جو ملک کی مقبول ترین پارٹی اور اسکی قیادت کو سیاسی میدان سے ہمیشہ کیلئے نکال کر جمہوریت کی ٹریک پر چڑھی گاڑی کو دوبارہ پٹڑی سے اتارنے کے تانے بانے بننے میں مصروف ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل کیلئے بے لاگ احتساب ہماری ضرورت ہے اور احتساب کی عملداری اوپر سے نیچے تک ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے جس کیخلاف بھی کسی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں‘ اسے بلاامتیاز قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے تاہم اس عمل میں جہاں بھی انتقامی کارروائیوں کا شائبہ پیدا ہوگا‘ اسکی شفافیت پر سوال اٹھنا بھی فطری امر ہوگا اور اس عمل میں جسے معتوب کیا جارہا ہے‘ اسکے بارے میں حقیقت جان کر عوام میں اس کیلئے مزید ہمدردیاں پیدا ہونگی۔ میاں نوازشریف کے حوالے سے آج قومی سیاست میں ایسی صورتحال استوار ہوتی نظر آتی ہے کہ انہیں جتنا دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ وہ اتنا ہی زیادہ ابھر کر اپنے خلاف سازشوں میں مصروف حلقوں اور عناصر کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے انکے سیاسی بیانیئے کو جتنی بھرپور عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے‘ اسکی ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ یہ صورتحال اس حقیقت کی بھی واضح عکاسی کررہی ہے کہ عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں اور حکمرانوں کو ماورائے آئین اقدامات کے تحت باربار اقتدار سے کھینچ کر باہر نکالنے کے عمل سے عاجز آچکے ہیں اور اب ان میں ایسی محلاتی سازشوں کو اپنی عوامی طاقت سے ناکام بنانے کی سوچ پختہ ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں اگر کسی جبری ہتھکنڈے سے عوام کی امنگوں اور خواہشات کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائیگی تو اس سے ملک میں بڑا فساد پیدا ہو سکتا ہے جو قائد و اقبال کی آدرشوں والے اس ملک خداداد کو مستقل طور پر بدامنی اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ بے شک آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری قوم کا مطمح نظر ہے تاہم اس میں کسی ایک کو خوش کرنے کیلئے کسی دوسرے کو معتوب کرنے سے انصاف کی عملداری پر ہی حرف آئیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جرنیلی آمروں کے ماورائے آئین اقدامات کو تحفظ فراہم کرنیوالے فرسودہ نظریۂ ضرورت سے ملک اور سسٹم کو خلاصی دلانے کیلئے ہماری عدلیہ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے اور جرنیلی آمر مشرف کے ہاتھوں معطل ہونیوالے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے اپنے فیصلہ میں نظریۂ ضرورت کو بھی سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ سپریم کورٹ کو اس فیصلہ کیلئے وکلائ‘ سیاستدانوں اور عوام پر مشتمل سول سوسائٹی کی تحریک سے ہی تقویت حاصل ہوئی تھی۔ اس تناظر میں سسٹم کو کسی قسم کی گزند تک نہ پہنچنے دینے کی محترم عدلیہ پر بھی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جتنا کہ سیاست دانوں کو اس کیلئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آج وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی طور پر جن سنگین خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے‘ وہ قومی یکجہتی اور ادارہ جاتی افہام و تفہیم کے متقاضی ہیں۔ اگر تمام قومی ریاستی ادارے اپنے آئینی اختیارات اور حدودوقیود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کریں اور اپنی اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو ہمارے کسی اندرونی اور بیرونی دشمن کو ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع نہیں مل سکتا۔ اگر آئین کے تحت قائم ملک کے سسٹم میں کوئی خلل پیدا نہ ہونے دیا جائے تو سسٹم کا استحکام ہی ملکی اور قومی استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ سسٹم میں موجود قباحتوں کو دور کرنا بلاشبہ ہماری ضرورت ہے تاہم اس کیلئے آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ کسی ماورائے آئین سوچ یا اقدام سے سسٹم کی اصلاح کے بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ماضی کے تلخ تجربات اسکے گواہ ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے عوام کی خواہشات میں نقب لگانے سے اب بہرصورت گریز کیا جائے اور عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے جس کیلئے انتخابی عمل کا سازگار بنایا جانا ضروری ہے۔ آج سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار آزاد قرار پانے کے باوجود منتخب ہوجاتے ہیں تو انہیں پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ملنے والے ووٹوں کا احترام کیا جائے اور انکی پارٹی امیدوار کی حیثیت برقرار رکھی جائے۔ اسکے برعکس اگر دوطرفہ فساد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو پھر آئین و قانون کی حکمرانی‘ انصاف کی عملداری اور اداروں کے تقدس کی پاسداری کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جائیگا۔