پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کے امکانات
کابل میں امریکی سفیر جان آرباس نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا افغان صدر اشرف غنی نے بڑی بہادری دکھائی ہے۔ ہم طالبان سے کہتے ہیں کہ وہ بغیر کسی پیشگی شرائط افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں اور تشدد بند کریں۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی کہا ہے کہ پاکستان، اشرف غنی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بھرپور حمایت کریگا۔
افغان مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں۔امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے طاقت کا بھرپور استعمال کر کے دیکھ لیا مگرسترہ سال میںطالبان کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔دنیا افغانوں کی غیر ملکی تسلط کو تسلیم نہ کرنے کی فطرت سے آگاہ ہے۔امریکہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان آیا،اسکی ہلاکت کے بعد اسے واپس چلے جانا چاہیے تھامگر اس نے افغانستان میں مستقل ڈیرہ جما لیاجس سے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے لوگوں کی حکومت کو تو تحفظ حاصل ہوامگر ملک میں امن کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔اشرف غنی کی طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی امریکہ اور پاکستان کی طرف سے حمایت کی گئی ہے یہ مذاکرات امریکہ کے براہِ راست کردار کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتے۔طالبان غیرمشروط مذاکرات پر تو آمادہ ہوسکتے ہیں،تاہم مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار طالبان کو اقتدار میں حصہ داربنانے پر ہی ہے اور یہ فیصلہ صرف امریکہ ہی کر سکتا ہے۔پاکستان نے تو طالبان اور افغان انتظامیہ کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا تھا،مذاکرات طالبان کو اقتدار میں شامل کرنے کی بات پر ڈیڈلاک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان سے غیر مشروط سرنڈر کی توقع عبث اور خلاف حقیقت ہے۔امریکہ کو افغانستان میں مسائل درپیش ہیںجو پاکستان اور امریکہ کے مابین بد اعتمادی کے ساتھ کشیدگی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔امریکہ نے پاکستان کی امداد روکی،جارحیت کی دھمکیاں دیں۔پاکستان امریکہ دہشتگردی کیخلاف سرگرم عمل ہیں۔دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں،دہشتگردی کے خاتمے میں بھارت سمیت کوئی ملک پاکستان کا متبادل نہیں ہوسکتا،جس کا اب امریکہ کو ادراک ہورہا ہے۔امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور ایلس ویلز نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان میں استحکام کے حل کا ایک انتہائی کلیدی جزو گردانتا ہے، موجودہ امریکہ پاکستان تعلقات سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اِس تعلق کو ترک کرنے کا سوچ رہے ہیں۔دوسری طرف گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان اسی کی دہائی میں پیدا شدہ افغان صورتحال اور بعد میں پرویز مشرف کی پسپائی کے نتائج بھگت رہا ہے۔ پاکستان اب کسی قیمت پر اپنے مفادات کے بدلے امریکی مفادات پورے نہیں کریگا۔ امریکی مفادات کیلئے مزید قربانیاں نہیں دینگے۔ان حالات میں جذباتی ہونے کی نہیں اچھی سفارتکاری کے ذریعے معالات سدھارنے اور دونوں ملکوں میں پہلے کی طرح اعتماد کی فضا بحال کرنے کی ضرورت ہے۔