گیس لائن معاہدے پر پاک ایران تعلقات شدید تر ہو گئے
ایرانی حکام نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اسلام آباد سے تہران کے اختلافات شدید ہوگئے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ایک ارب ڈالر سے زائد ہرجانے کیلئے پاکستان ایران کو ثالثی عدالت میں جانے سے روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر کی منطق پر ایران پاکستان سے تنگ ہے۔
ایران نے اپنی طرف سے گیس پائپ لائن مکمل کر لی ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے لائن ادھوری ہے جو مبینہ طور پر امریکہ کے دبائو کے باعث تکمیل کے مراحل طے نہیں کر سکی۔ امریکہ نے جب ایران پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں اس دور میں کمزور ہی سہی معاہدے پر عمل سے صرف نظر کرنے کا جواز تھا امریکہ کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد پاک ایران معاہدوں کی تکمیل اور پیشرفت میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے مگر پائپ لائن جہاں تھی وہیں ہے ایران خود پاکستان کی طرف لائن کی تعمیر کی پیشکش کر چکا ہے مگر امریکہ سے ڈکٹیشن نہ لینے کے دعوے دار حکمران اور حکام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ توانائی کی ضرورت بھی اسی تناسب سے بڑھ رہی ہے۔ تاپی گیس لائن 2029 میں ممکنہ طور پر مکمل ہونی ہے۔ افغانستان اور بھارت کے تاپی پائپ لائن معاہدے میں شامل ہونے سے اس معاہدے کا مستقبل بھی سوالیہ نشان ہے، اسکی تکمیل بھی پاک ایران گیس پائپ لائن کی ضرورت کو ختم نہیں کر سکتی۔ تاپی جیسی مزید بھی کئی پائپ لائنوں کی ضرورت پڑیگی۔ پاک ایران گیس لائن کی تعمیر سے اغماز برتنے والے ملک وقوم کے مستقبل سے بے فکر اور لاپروا ہیں۔ گیس پائپ کی مقررہ مدت میں تعمیر نہ کرنے پر معاہدے کیمطابق پاکستان کو روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ ہو رہا ہے۔ ایران کے اب تیور بدلے نظر آتے ہیں اسلئے بہتر ہے کہ ایران کے ساتھ بلاتاخیر بات کی جائے اور پائپ لائن کی تعمیر بھی شروع کر دی جائے۔ اربوں روپے کے جرمانے جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے اور یہی قومی مفاد میں بھی ہے۔