قومی اسمبلی: قرضوں کی وصولی سے متعلق قانون کی کمزوری اور معافی معاملہ کی بازگشت
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی میں گزشتہ روز قرضوں کی وصولی کے متعلق قانون کی کمزوری اور قرضوں کی معافی کے معاملہ کی بازگشت سنائی دی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ 50 ہزار قرض نادہندگان کے معاملات زیرالتواء ہیں جن کے پاس مقدمات زیرالتواء ہیں انہیں بھی کردار ادا کرنا چاہئے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے قرضوں کی وصولی کے قانون میں سقم اور معاف کر دیئے گئے قرضوں کے بارے میں ایشو کو قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کو بھیج دیا اور ہدایت کی کہ اس کی تحقیق کر کے 15 دن کے اندر رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔ رکن قومی اسمبلی رانا محمد حیات خان نے توجہ دلاؤ نوٹس میں اس ایشو کو اٹھایا تھا۔ محرک کا مؤقف تھا کہ قوم کی لوٹی ہوئی اربوں روپے کی دولت واپس لائی جائے۔ پارلیمنٹ اس حوالے سے سخت قانون سازی کرے۔ اگر موجودہ اسمبلی نے قانون سازی نہ کی تو قوم سے اپیل ہے کہ وہ الیکشن 2018 ء میں کسی کو ووٹ نہ دے۔ قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست ایوان میں پیش کی جائے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل خان نے کہا کہ نادہندگان کے 50 ہزار مقدمات عدالتوں میں زیرالتواء ہیں۔ ان مقدمات کی فوری پیروی سے بینکوں کی رقم واپس آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قرضہ معاف نہیں کرتی۔ قرضوں کی وصولی کے لئے 2001 ء کا قانون موجود تھا۔ بینکوں کو اختیار تھا کہ وہ رہن رکھی جائیداد کو فروخت کر سکتے ہیں۔ مگر سپریم کورٹ نے اس قانون کو ختم کر دیا۔ حکومت نے اب یہ حق بینکوں کو واپس دیدیا ہے۔ رانا محمد حیات خان نے کہا کہ قرضہ معاف کرانے والے خود کو دیوالیہ ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی اربوں روپے کی لوٹی رقم واپس لانے میں ہمیں کردار ادا کرنا چاہئے۔