نواز شریف کی برطر فی سے غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہوئی‘ مشاہد اﷲ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی، اے پی پی)وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ انتظامی اختیارات پارلیمان اور حکومت کا حصہ ہیں۔ اس کو اگر کوئی دوسرا ادارہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گیا،نواز شریف کو برطرف کرنے سے سی پیک منصوبے سمیت ملک میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری شدید متاثر ہوئی ہے‘ مشکل ترین حالات میں بھی حکومت اپنے تجربے کے بل بوتے پر ملک کو آگے بڑھا رہی ہے‘ عدلیہ ‘ انتظامیہ اور مقننہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں‘ اگر ریاستی ادارے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کریں گے تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پونے 5 سال پورے ہوگئے ہیں‘ انتخابات میں تین ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔ ہم نے انتہائی نامساعد حالات میں پانچ سال پورے کئے ہیں۔ حکومت کے پہلے دن سے ہی مختلف حیلے بہانوں سے مسائل کھڑے کئے گئے اور حکومت کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی دھرنے دیئے گئے اور کبھی کینیڈا سے لوگوں کو بلوایا گیا‘ یہ ساری صورتحال قوم کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں احتساب کا دور ہے اور احتساب ہونا بھی چاہیے لیکن کیا تمام احتساب اور تعزیریں اس پارلیمان کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں قائداعظم محمد جناح‘ لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کا احتساب ہوا لیکن کسی نے غلام محمد خان کا احتساب نہیں کیا۔ ملک کے آئین کو توڑنے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک میں جسٹس کیانی اور جسٹس کارنیلس جیسے ججز تھے تو جسٹس منیر بھی عدلیہ میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف نے اس ملک کو جو کچھ دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ میرا سوال اس پارلیمان سے یہ ہے کہ گورننس کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے یا کسی اور کے پاس ہے۔ عوام نواز شریف کے حوالے سے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے۔ یہ کیسے فیصلے ہیں کہ ایک شخص پہلے کہتا ہے کہ اب ایسا ہوگا اور ایسا ہوگا اور ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ ان فیصلوں کے بارے میں لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پارلیمان کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ تمام اداروں کی ماں ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ آئین سپریم ہے لیکن یہ آئین بھی پارلیمان بناتی ہے۔ یہاں پارلیمان کی کوئی عزت نہیں اور ان کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔