نااہل شخص کو کنگ میکر بننے کیلئے فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017ء سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بادشاہت کیلئے نا اہل شخص کو کنگ میکر بننے کیلئے فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔ ایک شخص کیلئے قانون سازی عدالت کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے۔ جو کام براہ راست نہیں کیا جا سکتا وہ بلا واسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا نواز شریف متضاد بیانات کی وجہ سے مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ میں مختلف وضاحتیں پیش کیں۔ نا اہلی کے بعد نواز شریف ن لیگ کے سربراہ نہیں رہ سکتے ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارٹی صدر کے لئے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اترنا لازم ہے‘ نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا‘ جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تب پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 نافذ العمل تھا 28 جولائی کے فیصلے سے نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔ 51 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی آرٹیکلز کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے شق 203 کی آئین سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 203 کو کالعدم قرار دینے سے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا۔ جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تب پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 نافذ العمل تھا۔ 28 جولائی کے فیصلے سے نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔ فیصلے کے بعد الیکشن کمشن نے بھی نواز شریف کا نام بطور پارٹی صدر ہٹا دیا تھا۔ نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کی مدت بھی متعین نہیں تھی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔ پارٹی صدر کے لئے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اترنا لازم ہے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی جماعت ہے ۔ مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تھے 3 اپریل 2016 کو آئی سی آئی جے کی طرف سے پانامہ کیس سامنے آیا پانامہ سے متعلق دنیا بھر میں خبریں شائع ہوئیں دنیا کے مختلف ممالک کی شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں آف شور کمپنیوں میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام بھی سامنے آئے۔ دنیا بھر میں پانامہ لیکس کی وجہ سے کئی عالمی رہنمائوں نے استعفے دیئے۔ نواز شریف نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے اندر مختلف وضاحتیں پیش کیں متضاد بیانات کی وجہ سے نواز شریف عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔ کچھ لوگ درخواست لیکر سپریم کورٹ آئے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 20 اپریل 2017 کو ایک فیصلہ دیا جس میں دو ججوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جبکہ تین ججز نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی نے 60 روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کی رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا اس عرصے کے دوران نواز شریف پارٹی صدر رہے۔ نااہلی کے بعد نواز شریف پارٹی سربراہ نہیں رہ سکتے تھے۔ عدالت پہلے قرار دے چکی ہے کہ ماتحت قانون کے ذریعے آئین کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کو دانستہ فائدہ پہنچانے کے لئے آئینی شقوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتیں قانون کے مطابق کام کررہی ہیں ایک شخص کیلئے کی گئی قانون سازی عدالت کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے اس سے مقننہ کو ایسے لوگ کنٹرول کریں گے جو آئین کے تحت پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جو شخص بادشاہ بننے کے لئے نااہل ہوا اسے کنگ میکر بننے کے لئے فری ہینڈ نہیں دیا جاسکتا۔ نااہل کا انتخابی عمل سے گزرے بغیر بطور پپٹ ماسٹر سیاسی طاقت استعمال کرنا آئین سے کھلواڑ ہے۔