فوک گلوکار صادق فقیر بھی چل بسے
الطاف احمد خان مجاہد
سفر تھا مٹھی کا، جو ضلع تھر کا صدر مقام ہے اور راستے میں ویگن کے ڈرائیور نے ایف ایم ریڈیو لگایا تو ایک خوبصورت آواز دل کے تاروں پر سروں کے رنگ بکھیر گئی۔ ایاز گل کا خوبصورت گیت ”تو کان تھیندے دھار، کھلندے کھلندے یار، ٹرک لڑی پیالار کرے“ اس سے قبل بھی کئی بار سنا تھا لیکن اس روز آواز کا کمال تھا یا تھر کا دل کش ماحول یا پھر چند گھنٹوں قبل کچھ دوستوں سے بچھڑنے کی کیفیت اس لئے کم و بیش سب رفقاءکی آنکھیں نم ہوگئیں۔
یہ صادق فقیر سے ہوا کی لہروں کے دوش پر پہلا تعارف تھا مٹھی پہنچے تو کچھ ساتھی ”اوڑھنیاں“ خریدنے جسے وہاں لوئی کہتے ہیں‘ چلدئیے ‘ اور کچھ نے ”رلی “لینے کی ٹھانی جو کپڑوں کے رنگ برنگے ٹکڑے جوڑ کر بنائی جاتی ہے اور اسے فرش پر بچھائیں تو قوس وقزح کے رنگ بکھر جاتے ہیں باقی مور کے پروں سے بنے پنکھے اور دیگر سوغاتیں خریدنا چاہتے تھے لیکن ہمارا رخ آڈیو سینٹر کی سمت تھا جہاں سے صادق فقیر کی گائیکی کی سی ڈی اور البم ملنے کا یقین تھا اور ہوا بھی یہی۔
”سندھ دیس جئی دھرتی توں تے پانھ جو سیں نوایاں“
”اسیں بس رھیا سیں ادھورا، ادھورا“
”رومال مارو، رگیو“
جیسے گیت، وائیاں، غزلیں اور نغمے سننے کو ملے تو صادق فقیر کا نیا روپ سامنے آیا۔ 20 مارچ 1946ءکو پیدا ہونے والے صادق فقیر نے رخصتی کا دن بھی فروری کی 26تاریخ کو چنا جب بہار کی آمد آمد ہے نصیر مرزا کہتے ہیں کہ تھرکی شناخت صادق فقیر تھے بلاشبہ کارونجھر کا پہاڑ، ماروی، چینی مٹی کے ذخائر، قدرتی حسن مور اور لاتعداد مندر، مساجد اور دیگر تاریخی آثار بھی تھر کا تعارف ہیں لیکن سندھ کی لوک موسیقی میں صادق فقیر اپنا بھر پور اور موثر نام اور کام رکھتے تھے۔
وہ حجازز مقدس گئے ہوئے تھے کہ عمرہ ادا کرسکیں میدان عرفات سے واپسی پر ان کی گاڑی سامنے والی گاڑی سے ٹکرا گئی وہ موقع پر ہی چل بسے البتہ اہلیہ اور برادرنسبتی زخمی ہوئے سندھی اخبارات نے درست لکھا کہ لوک موسیقی کا ستارہ ڈوب گیا صحرائے تھر کے قصبے ڈیپلو میں بہار کا پہلا سورج دیکھنے والے صادق نے راگ کے اسباق مامون حسین فقیر سے لئے اور عام عشقیہ شاعری کے برعکس تھر کے لوک گیت، ایاز گل اور شیخ ایاز سمیت جدید شعرا کا کلام گایا اور پیشہ کے اعتبار سے کالج لیکچرر تھے ان کی آواز میں سوزو گداز تھا اور یہ درد کی کیفیت ہی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی ان کی وفات پر ایاز لطیف پلیجو، عبدالواحد آریر اور قادر مگسی جیسے سیاستدانوں، محکمہ ثقافت کے سابق سیکرٹری عبدالقادر منگی، صوبائی وزیر دوست علی راہموں، صنم ماروی، دیبا سحر، ضامن علی، اقرار وحید، ذوالفقار علی، استاد امیر علی، مظہر علی، شمن میرالی، معروف براڈ کاسٹر کوثر لبرڑو، یاسر قاضی، سمیع بلوچ، لطیف یونیورسٹی کی شیخ ایاز چئر کے سربراہ مونس ایاز سمیت سینکڑوں اہم شخصیات نے اظہار افسوس کیا سب نے کہاکہ ان کی اچانک حادثاتی موت نے لوک موسیقی کو وہ نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں وہ صرف اچھے گائیک ہی نہیں بلکہ ایک خوبصورت انسان بھی تھے ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ اپنی نفیس طبیعت کے باعث ہر چھوٹے بڑے فنکار کو اپنائیت کے ساتھ ملتے تھے ورنہ آج جس کے چند البم آجائیں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن صادق فقیر دنیاوی مراتب، کامیابیوں اور اعزازت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ گیت، سنگیت اور سر کا علم رکھنے والے ان کی معصومیت کا اعتراف کرتے ہیں ویسے بھی تھر کے باشندے عاجزی، انکساری اور نیاز مندی کا پیکر ہوتے ہیں ارباب نیک محمد سے لیکر لیاقت جونیجو اور رسول بخش رحمدانی تک جس سے ملاقات ہو وہ آپ کو گرویدہ بنا لیتا ہے کہ اپنائیت کا وصف تھر کی پہچان ہے۔
صادق نے اپنے ساتھ فقیر کا جولا حقہ جوڑا تھا وہ زندگی کی آخری سانسوں تک ان کے نام کا حصہ رہا جیتے جی انہوں نے دلوں پر راج کیا زندگی کی آخری سانسیں مکہ میں بسرکیں۔ جہاں عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے ہوئے تھے ارض مہران میں ان کی موت کا غم تازہ ہے صوبے کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بہترین فنکار اور البیلے راگی کی یاد میں تعزیتی اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے ضلع تھر پار کر میں وفات کے اگلے روز عام تعطیل تھی پورا سندھ سوگوار ہے کہ ایسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے ایسا نہیں کہ صادق نے صرف سندھی گیت ہی گائے اس کے ایک اردو گیت،” نگاہوں کی ملاقاتیں ہمیں سونے نہیں دیتیں“۔ پر کتنے ہی لوگ آب دیدہ ہو جاتے تھے ایسا ہی اس کی حادثاتی موت کی خبر سن کر ہوا۔ ایک خوبصورت آواز خاموش ہوگئی لیکن وہ دلوں میں موجود رہیں گے کہ ان کی گائیکی امر ہے کانوں میں ان کی آواز گونج رہی ہے۔
”سکھی! پیا سے ملو توکہنا۔۔۔۔۔